حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ 


تاریخِ عالم نے ہزاروں جرنیل پیدا کیے، لیکن دنیا جہاں کے فاتحین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے طفلِ مکتب لگتے ہیں اور دنیا کے اہلِ انصاف سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدل پروری کو دیکھ کر جی کھول کر اُن کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔

امیرِ شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ: ’’عمر( رضی اللہ عنہ ) مرادِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )ہے۔ ‘‘ یعنی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مُریدِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں اور عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مرادِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ ایک عالم نے کیا خوب کہا کہ: ’’عمرؓ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی تھے۔‘‘ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علمائے اسلام ،حکمائے اسلام اور مستشرقین نے اپنے اپنے لفظوں میں بارگاہِ فاروقی میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔

 سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاشمار مکہ مکرمہ کے چند پڑھے لکھوں میں ہوتاتھا، لیکن وہ بھی اسی عرب معاشرے کا حصہ تھے، جہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قبل از نبوت صادق وامین کہا جاتا تھا اور بعد از اعلانِ نبوت نعوذ باللہ! ساحر ،شاعر،کاہن ،اور نجانے کیا کیا کہا گیا۔ 

اہلِ مکہ کے جبر وستم بہت بڑھ چکے تھے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرِعام تبلیغ تو درکنار‘ عبادت بھی نہیں کرسکتے تھے، چھپ کر دین اسلام کی تبلیغ وعبادت کی جاتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد اس وقت اُنتالیس تھی۔ ایک رات بیت اللہ کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردِگار سے عجیب دعا کی، مانگی بھی تو عجب شئے مانگی۔ کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے، اسلام کی بڑھوتری کی دعا کی جاتی، اہلِ مکہ کے ایمان لانے کی دعا کی جاتی، دنیائے عالم میں اسلام کی اشاعت کی دعا کی جاتی یا اہل مکہ کے ظلم وستم کی بندش کے لیے ہاتھ اُٹھائے جاتے، لیکن میرے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ: ’’اے اللہ! عمر وابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا ۔‘‘ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اللہ ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکو شرفِ قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغِ برہنہ لیے جارہے تھے، راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا، جس نے پوچھا کہ عمر! خیریت! کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے: محمد کو قتل کرنے جارہاہوں ،اس نے نئے دین کااعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق کردی ہے، کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کردوں۔ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہا کہ: عمر! اگر تم نے ایسا کیا تو کیا ’’بنو ہاشم وبنو زہرہ ‘‘تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے: لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہوچکے ہو ،انہوںنے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو، تمہاری بہن وبہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں ۔

جلال میں نکلنے والا عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے، یہاں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ان کے بہنوئی وبہن کو سورۂ طہٰ پڑھا رہے تھے، باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی، اندر سے پوچھاگیا کون؟ عمر! نام سنتے ہی سیدنا خباب ؓ چھپ گئے، عمر نے آتے ہی پوچھا: تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ: ہم آپس میں باتیں کررہے تھے، کہنے لگے: میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو؟ بہنوئی نے کہا کہ: عمر! وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے، تو جس دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے، بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر، بہن چھڑانے آئی تواتنی زور سے اس کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل آیا، بہن کے چہرے پہ خون دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ: اچھا! لائو، دکھائو، تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے کہا کہ: تم ابھی اس کلام کے آداب سے ناواقف ہو، اس کلامِ مقدس کے آداب ہیں، پہلے تم وضو کرو، پھر دکھائوں گی، انہوںنے وضو کیا اور سورۂ طہٰ پڑھنی شروع کی، یہ پڑھتے جارہے تھے اور کلامِ الٰہی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جارہے تھی۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے: عمرؓ! کل رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی تھی کہ: ’’اللّٰھمّ أعزّ الإسلام بأحد الرجلین إمّا ابن ھشام وإمّا عمر بن الخطاب‘‘ اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ: ’’اللّٰھم أید الإسلام بأبي الحکم بن ھشام وبعمر بن الخطاب۔‘‘ اے اللہ ! عمر وبن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا، یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی تائید فرما۔‘‘ اے عمر! میرے دل نے گواہی دی تھی کہ یہ دعا ئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہوگی۔ اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا رأی عمر بن الخطاب أو أبا جھل بن ھشام قال: اللّٰھم اشدد دینک بأحبّہما إلیک‘‘ یعنی جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب العزت کے حضور دستِ دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ (طبقات ابن سعد)

سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ: اچھا! تو مجھے بتائو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، انہوں نے بتایا کہ: صفاپہاڑی پر واقع ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل پڑے، دَرّے پر مقیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا کہ عمر آرہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے، تو گھبرائے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، وہیں اسداللہ ورسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہ فرمانے لگے: آنے دو، اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کاکام تما م کردوں گا۔

جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر ؓ سے فرمایا:’’ اے عمر! تم کس چیز کا انتظا رکررہے ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو؟!۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ فوراًکلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اصحابِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔ پھر نبی رئوف ورحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ اخْرُجْ مَافِيْ صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَأَیِّدْ لَہٗ إِیْمَانًا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’یا اللہ ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔‘‘ (مستدرک للحاکم) قبولِ اسلام کے وقت بعض مؤرخین کے نزدیک آپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال تھی۔مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسرِ قرآن جناب علامہ طنطناویؒ نے عجیب جملہ کہا ہے کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا آغاز ہوا ۔‘‘

مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال: استبشر أھل السماء بإسلام عمرؓ ‘‘ یعنی حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ: آسمان والے عمر ؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔‘‘ (مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)

 چند ہی لمحوں بعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: اے اللہ کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمانے لگے کہ: پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں؟ چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں، میں قربان جائوں اپنے آقا ومولا صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ انہوں نے ایسے ہی عمر ؓ کو نہیںمانگا تھا، بلکہ دوررس نگاہِ نبوت دیکھ رہی تھی کہ اسلام کو عزت وشوکت عمرؓ کے آنے سے ہی نصیب ہوگی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دو صفوں میں تقسیم کیا: ایک صف کے آگے اسد اللہ ورسولہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مرادِ رسولؐ، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل رہے تھے۔ مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے دیکھا، نظر پڑی حمزہ ؓ پر اور عمر ؓ پر تو بڑے غمگین ہوئے، لیکن کس میں جرأت تھی کہ کوئی بولتا؟! اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغِ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: ’’إن اللّٰہ جعل الحق علٰی لسان عمرؓ وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمرؓ کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق وباطل میں فرق کردیا ہے ۔‘‘ (طبقات ابن سعد)

جناب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’واللّٰہ ما استطعنا أن نصلّي عندالکعبۃ ظاھرین حتٰی أسلم عمرؓ‘‘۔۔۔۔ ’’اللہ کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔‘‘ (مستدرک للحاکم)

اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ:جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا، اور ہم کھلے بندوں اسلام کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت اللہ میں بیٹھتے تھے، ہم بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے بدلہ لیتے تھے ۔

کچھ اسی قسم کے تأثرات فقیہ الامت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’عمرؓ کا اسلام قبول کرنا ہماری کھلی فتح تھی، اور عمر ؓکا ہجرت کرنا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرتِ خاص تھی ، اور آپ ؓ کی خلافت تو ہمارے لیے سراپا رحمت تھی، میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ہم بیت اللہ کے قریب بھی نماز ادا نہیں کرسکتے تھے، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو آپ ؓ نے کفار سے مقابلہ کیا، یہاں تک کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے دینے لگے۔ (طبقات ابن سعد)

سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شانِ رفیعہ میں چند فرامینِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتا ہوں ۔ 

۱:-نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:

’’اے ابن خطاب !اس ذات پاک کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، جس راستے پہ آپ کو چلتا ہواشیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے، وہ راستہ چھوڑ کر دوسراراستہ اختیار کرتا ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری)

۲:-صحیح بخاری میں روایت ہے کہ :’’حضور پاک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حالتِ خواب میں دودھ پیا، یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے آثار میرے ناخنوں میں نمایاں ہونے لگے، پھر میں نے وہ دودھ عمرؓ کو دے دیا، اصحابِ رسولؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم‘‘۔

۳:-اسی طرح امام بخاری ؒنے ایک اور روایت بھی اپنی صحیح میںدرج کی ہے کہ :

’’ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں نیند میں تھا، میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اور انہوںنے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں، کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے نیچے تک ،اور پھر عمرؓ کو پیش کیا گیا، انہوں نے ایسی لمبی وکھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین پر گھسٹتی جارہی تھی ،اصحابِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دین ‘‘۔

۴:-اسی طرح بڑی ہی مشہور ومعروف حدیث نبوی ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔‘‘یعنی اگر سلسلۂ نبوت جاری رہتا تو سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی منصبِ نبوت سے سرفراز کیے جاتے ۔

۵:-ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ :’’رسول مکرم ومعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم سے پہلے جو اُمم گزری ہیں ان میں مُحدَث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی مُحدَث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔‘‘

اسی حدیث مبارکہ میں لفظ’’مُحدَث‘‘کی تشریح میںصاحب فتح الباری علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ یوں تحریر فرماتے ہیں کہ :

’’المُحْدَث المُلْھَم وھو من ألقي في روعہ شيء من قبل الملاء الأعلٰی ومن یجری الصواب علیٰ لسانہٖ بغیر قصد۔‘‘ 

یعنی ’’محدث وہ ہے جس کی طرف اللہ کی طرف سے الہام کیاجائے، ملاء اعلیٰ سے اس کے دل میں القاء کیا جائے اور بغیر کسی ارادہ وقصد کے جس کی زبان پر حق جاری کردیا جائے۔‘‘ یعنی اس کی زبان سے حق بات ہی نکلے ۔

۶:-ایک بار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شفیع اعظم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی تو نبی مکرم ومعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یا أخي أشرکنا في صالح دعاء ک ولا تنسنا‘‘ ۔۔۔ ’’اے میرے بھائی ! اپنی نیک دعائوں میں ہمیں بھی شریک کرنا اور بھول نہ جانا۔‘‘

۷:-سلسلۂ احادیث سے آخری حدیث پیش کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ بہت دراز ہے اور دامنِ صفحات میں جگہ کم ،بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ :’’ ایک دفعہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے، ہمراہ ابوبکر ؓ ،عمرؓ اور عثمان ؓ بھی تھے، اُحد کاپہاڑ لرزنے لگا توحضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک اُحد پر مارتے ہوئے فرمایا: ’’اے اُحد! ٹھہر جا، تجھ پر اس وقت نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں۔‘‘اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ: ’’اللّٰھم ارزقني شھادۃ في سبیلک وموتا في بلد حبیبک‘‘ ۔۔۔ ’’اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت دینا اور موت آئے تو تیرے حبیب( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہر میں آئے ۔‘‘

آخری ایامِ حیات میں آپؓ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں، آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے، اس وقت ایک درّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے، مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے، اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس روز بھی آپؓ نے ایساہی کیا، نماز ویسے ہی آپؓ نے شروع کی تھی، صرف تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لؤلؤ (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، ایک زہر آلود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا، اس نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجر سے لگائے، آپؓ بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر بجائے آپؓ کی امامت کے مختصر نماز پڑھ کر سلام پھیرا، ابولؤلؤ نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے، مگر نمازیوں کی صفیں مثل دیوار کے حائل تھیں، اس سے نکل جاناآسان نہ تھا، اس نے اور صحابیوںؓ کو بھی زخمی کرنا شروع کردیا، تیرہ صحابی زخمی ،جن میں سے سات جاں بر نہ ہوسکے، اتنے میں نماز ختم ہوگئی اور ابولؤلؤ پکڑ لیا گیا، جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا ۔ (خلفائے راشدینؓ ،از لکھنویؒ)

بالآخر آپ کی دعائے شہادت کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں بلکہ مُصلائے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر آپ کو ۲۷ ذو الحجہ بروز چہار شنبہ (بدھ) زخمی کیا گیا اور یکم محرم بروز یک شنبہ (اتوار) آپ رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی ،حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبویؐ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں آپ ؓ کی قبر بنائی گئی۔ ہو۔


عمر بن خطاب اور اقوالِ عالَم

” میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔ از محمدصلی اللہ علیہ وسلم “

” اگر دنیا کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں اور عمر کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو عمر کا پلڑا بھاری ہوگا۔ از عبداللہ بن مسعود[295] “

” عمر کی زبان پر سکینہ بولتا ہے۔ وہ قوی و امین ہیں۔ از سیدنا علی “

” ابوبکر و عمر تاریخِ اسلام کی دوشاہکاررضي اللّٰہ تعالٰی عنہ وأرضاہ 

بغداد کا باہوش دیوانہ

 وہ اُس دور میں حکومت ِوقت پر کھلے بندوں تنقید کرتا رہا جب زبان

کا تصّور بھی عنقا تھا ۔ فوٹو : فائل 

بہلول تاریخ کے ایک یگانہ روزگار کردار گذرے ہیں۔تاریخِ عرب میں اس نام کے کئی اور لوگوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے لیکن بہلول سے مراد وہ صوفی ہیں جنہوں نے دیوانگی کا مفہوم بدل دیا اور لوگوں کو دانش مندی کے معنی سمجھائے۔ تاریخ کے صفحات میں وہ واحد دیوانے ہیں جو دانائے راز ہیں اور جنہوں نے دانشمندوں کو حکمت و دانش سکھائی۔ انہوں نے ایک ایسی انوکھی راہ چنی جو آج تک کسی کے قدموں سے پامال نہیں ہوئی۔


اصل نام واہب بن عمرو تھا‘ جائے ولادت کوفہ بیان کی گئی ہے۔ بغداد کے دولت مندوں میں شامل تھے۔ بعض روایات میں انہیں عباسی خلیفہ ہارون رشید کا رشتہ دار لکھا گیا ہے۔ امام جعفر صادق ؒکے شاگردوں میں سے تھے۔


آپ نے ان کے فرزند امام موسیٰ کاظم ؒ کا زمانہ بھی دیکھا۔ مورخین کے بقول وہ ہارون رشید کے عہد کے دانشمندوں میں سے ہیں جو کسی مصلحت کے تحت دیوانہ بن گئے تھے۔بہلول جرات و بے باکی‘ حق گوئی اور مظلوموں کی حمایت کے علمبردار تھے۔ آپ اس دور میں حکمران طبقے پر کھلے بندوں تنقید کرتے جب کوئی اس کے خلاف زبان کھولنے کا تصّور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ان کی بے مثال دانشمندی اور ذہانت نے کبھی یہ موقع نہیں دیا کہ ان کے کسی لفظ پر بھی گرفت کی جا سکے۔

بہلول کا پہلا ذکر مشہور عرب فلسفی الجاحظ کی کتاب ’البیان‘ میں ملتا ہے۔ حکایات کے مطالعے سے ان کے جو خدوخال ابھرتے ہیں وہ ایک غیر معمولی ذہین‘ دانشمنداور طباغ شخص کے ہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں خدارسیدہ عالم‘ نابغہ روزگار اور بہترین حس مزاح رکھتے تھے۔ اس دور کے حالات اور معاشرت پر ان کی نگاہ گہری تھی۔


وہ حیرت انگیز شگفتہ برجستگی کے ساتھ اپنی دیوانگی کابھرم بھی رکھتے ۔دیوانگی کے پردے میں چھپی دانش بھی لوگوں پر عیاں کر جاتے۔ آپ نے دیوانگی اور فرزانگی کو کچھ ایسے کراماتی انداز میں ہم آہنگ کیا کہ وہ نہ صرف ان کی جان کی ضامن بنی بلکہ مظلوموں کی حمایت کا ایک موثر ذریعہ اور حکومت وقت پر کھلی تنقید بھی بن گئی۔


شگفتگی‘ زندہ دلی اور بذلہ سنجی نے انہیں اس دور کا ایک ہردلعزیز کردار بنا دیا۔ تاریخ کے صفحات میں آپ ایک ایسامحیرالعقول کردار ہیں جو دیوانہ ہے اور لوگ ان کے فضل و کمال کے قائل بھی ہیں۔ آپ پاگل کہلاتے مگر مشکل مسئلوں میں ان کی رائے کو اہمیت بھی دی جاتی۔ بہلول دانا کے دلچسپ وسبق آموز واقعات پہ مشتمل ایک انگریزی کتاب حال ہی میں طبع ہوئی ہے۔ اس میں سے منتخب واقعات پیش خدمت ہیں۔


ایک دن بہلول ہارون رشید کے محل پہنچے تو دیکھا کہ مسند خالی ہے اور کوئی روک ٹوک کرنے والا بھی نہیں‘ فوراً بے کھٹکے اوپر گئے اور ہارون رشید کی جگہ تخت پر بیٹھ گئے۔جب درباری غلاموں نے یہ دیکھا تو فوراً بہلول کو کوڑے مار کر ہارون رشید کی مسند سے نیچے لے آئے۔ درد کی شدت کے باعث بہلول کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔ اسی وقت ہارون آ پہنچا‘ دیکھا کہ بہلول رو رہے ہیں۔ اس نے پاسبانوں سے ان کے رونے کا سبب پوچھا۔ غلام نے پوری کیفیت کہہ سنائی۔ ہارون رشید نے انہیں ڈانٹا اور بہلول کی دل جوئی کی۔


بہلول نے کہا ’’میں اپنے نہیں تیرے حال پر رو رہا ہوں، اس لیے کہ میں تیری جگہ صرف چند لمحے ہی بیٹھا مگر اتنی مارکھائی اور مصیبت جھیلی اور تو جو عمر بھر سے اس مسند پر بیٹھا چلا آرہا ہے پھر بھی اپنے انجام کی فکر نہیں کرتا‘‘۔


٭٭


کہتے ہیں کہ ایک دفعہ بہلول بصرہ گئے۔ چونکہ اس شہر میں ان کا کوئی ملاقاتی نہیں تھا لہٰذا انہوں نے تھوڑے دنوں کے لئے ایک کمرہ کرائے پر لے لیا۔ لیکن وہ اتنا پرانا تھا کہ ذرا سی تیز ہوا چلنے پر لرزنے لگتا۔ بہلول مالک مکان کے پاس گئے اور کہا ’’آپ نے مجھے جو کمرا دیا وہ بے حد خطرناک ہے کیونکہ تیز ہوا چلنے پر اس کی چھت اور دیواریں بولنے لگتی ہیں‘‘۔


مالک مکان مزاحیہ قسم کا تھا‘ کہنے لگا ’’یہ کوئی برائی نہیں‘ آپ جانتے ہیں کہ تمام موجودات ہر وقت خدا کی تعریف کرتی اور تسبیح پڑھتی ہیں اور یہ کمرے کی حمدو تسبیح ہے‘‘۔


بہلول نے کہا ’’یہ درست ہے لیکن موجودات تسبیح اور تحلیل کے آخر میں سجدہ بھی کرتی ہیں اور میں کمرے کے سجدے کے ڈر سے بچناچاہتا ہوں۔‘‘


٭٭


بہلول اکثر قبرستان میں بیٹھے رہتے تھے۔ایک روز ہارون کا اس طرف سے گزر ہوا۔ بہلول پر نگاہ پڑی تو سواری ٹھہرائی اور پوچھا ’’بہلول !یہاں کیا کر رہے ہو‘‘۔


’’میں ایسے لوگوں سے ملاقات کرنے آیاہوں جو نہ لوگوں کی غیبت کرتے ہیں‘ نہ مجھ سے کوئی امید یا توقع رکھتے اور نہ کسی کو کوئی تکلیف دیتے ہیں۔‘‘ بہلول نے وضاحت کی۔


ہارون نے گہراسانس لیا اور دریافت کیا ’’تم مجھے پل صراط سے گزرنے اور اُس دنیا میں سوال وجواب کی کچھ خبردے سکتے ہو‘‘؟


’’یقینا‘ لیکن اس کے لیے تھوڑا اہتمام کرنا ہوگا‘ کیا عالی جاہ اس کا انتظام کر دیں گے؟‘‘ بہلول نے پوچھا۔


’’ہاں‘ ہاں‘ تم بتاؤ،میں ابھی حکم دیتا ہوں۔‘‘ ہارون نے جواب دیا۔


’’ عالی جاہ! اپنے ملازموں کو حکم دیں کہ یہاں آگ جلائیں‘ اس پر ایک بڑا توا رکھیں اور اسے گرم ہو کر سرخ ہوجانے دیں‘‘۔ بہلول نے بتایا۔


’’بہلول کی فرمائش پوری کی جائے‘‘۔ ہارون نے فرمان شاہی جاری کیا۔ ملازموں نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔


بہلول نے کہا ’’عالی جاہ! پہلے میں اس توے پر ننگے پاؤں کھڑا ہوں گا اور اپنا تعارف کراوں گا ۔یعنی میرا نام‘ لباس اور میری خوراک کیا ہے؟ اس کے بعد اسی طرح آپ بھی توے پر کھڑے ہو کر اپنا تعارف کروائیں گے۔‘‘


ہارون کو کچھ تامل تو ہوا لیکن اس نے یہ شرط منظور کر لی اور بہلول سے بولا ’’تم پہل کرو‘‘۔


بہلول تیزی سے توے پر کھڑے ہوئے اور جلدی سے بولے ’’ بہلول‘ خرقہ‘ جو کی روٹی اورسرکہ‘‘۔ یہ چند لفظ کہہ کر وہ جھٹ توے سے نیچے اتر آئے۔ چند لمحوں میں ان کے پیر جلنے سے محفوظ رہے جو پتھریلی راہوں پر اکثر برہنہ چلنے کے باعث اپنی حساسیت سے محروم ہو چکے تھے۔



اب ہارون کی باری آئی‘ وہ توے پر چڑھا اور شاہی القاب کے ساتھ اپنا نام بھی نہیں بتا پایا تھاکہ اس کے پیر جلنے لگے۔ وہ گرتا پڑتا توے سے نیچے اتر ا اور بولا ’’بہلول! تم نے مجھے کس عذاب میں ڈال دیا ‘‘۔


بہلول مسکرا کر بولے ’’آپ ہی نے فرمائش کی تھی کہ قیامت کے سوال وجواب کے بارے میں بتایا جائے۔ مگر آپ تو گرم توے کی تپش برداشت نہیں کر سکے‘ اُس وقت کی حدت کیونکر برداشت کریں گے؟ جو لوگ خداپرست اوردنیا کے جاہ و حشم سے دور ہیں اور لالچ طمع نہیں رکھتے‘ وہ تو پل صراط سے آرام کے ساتھ گزرجائیں گے لیکن جو دنیاوی شان و شوکت میں ڈوبے ہوئے ہیں‘ انہیں اسی عذاب سے گزرنا ہو گاجس طرح کے ہلکے عذاب سے آپ ابھی گزرے۔‘‘


٭٭


ایک دفعہ بہلول بچوں کے ہجوم میں بچہ بنے دیوانے جیسی حرکتیں کرتے ایک ویرانے میں پہنچ گئے۔ وہ بچوں کے ساتھ ساتھ دوڑ کر ہانپ گئے تھے اور کچھ تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے۔ وہ اپنے عصا کے فرضی گھوڑے سے اترے اور بچوں سے بولے:


’’میراگھوڑا تھک گیا ہے‘ اسے بھوک بھی لگی ہے۔‘‘ انہوں نے پھر عصا کو گھوڑے کی طرح چمکار کر کھنڈر کی شکستہ دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا۔



بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔وہ پھر کچھ دیر ان کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے رہے۔ جب بہلول نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تو وہ ایک ایک کر کے اپنے گھر لوٹ گئے۔ بہلول نے مگر اسی کھنڈر میں ڈیرا جمالیا۔ ان کی عدم موجودگی سے گھر والے پریشان ہوگئے۔عزیز رشتہ داراکھٹے ہوئے اور لوگوں سے پوچھتے‘ معلوم کرتے اسی کھنڈر تک آپہنچے جہاں انہوں نے بسیرا کیا تھا۔



دیکھا کہ وہ ننگی زمین پر اپنے بازو کا تکیہ بنائے چین کی نیند سو رہے ہیں۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ان کے عزیزوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کچھ اظہار افسوس کرنے لگے۔ ایک نے جھک کر بہلول کا شانہ ہلایا اور بولا: ’’واہب! اٹھو جنون کی اس نیند سے جاگو‘ آنکھیں کھولو۔‘‘


بہلول نے نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اپنے چاروں طرف جمع شناسا چہروں کو دیکھا جن پر دکھ اور تفکر کی لکیریں تھیں۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘ انہوں نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔


ایک عزیز نے قریب بیٹھ کر ان کی عبا سے گرد جھاڑتے ہوئے کہا ’’واہب اٹھو‘ گھر چلو۔‘‘




’’یہ بھی تو گھر ہے۔‘‘ بہلول نے کھنڈر کی ٹوٹی دیواروں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’بھلا اس میں کیا کمی ہے؟نہ ہمسائے کا جھگڑا‘ نہ مالک مکان کا خوف‘ نہ دربان کی مصیبت‘ نہ چور کا ڈر!‘‘


’’ہماری بات سمجھنے کی کوشش کرو‘ یہ جگہ تمہارے شایان شان نہیں‘‘۔ ان کے رشتہ دار پریشان ہو گئے

’’یہ جگہ میرے شایان شان کیوں نہیں‘ یہ تو خلیفہ کے محل سے بھی بہتر ہے کہ روزمحشر مجھ سے اس کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ تو نہیں ہو گی۔‘‘


ان کے رشتہ دار زچ ہو گئے‘ انہوں نے بہتیری کوشش کی کہ انہیں گھر لے جائیں لیکن وہ قطعاً رضامند نہیں ہوئے۔


٭٭


ایک دن بہلول کا دوست گندم پسوا کر اپنے گدھے پہ لادے آ رہا تھا۔ بہلول کے گھر کے سامنے پہنچا تو اس کا گدھا اچانک تھکن کے مارے گر پڑا۔ دوست نے بہلول سے کہا کہ اپنا گدھا اسے دے دیں تاکہ وہ اس پہ آٹا لاد سکے۔


بہلو ل نے طے کر رکھا تھا کہ وہ کسی کو اپنا گدھا نہیں دیں گے۔ کہنے لگیـ’’میرے پاس گدھا نہیں ہے۔‘‘


اتفاق سے گھر کے صحن میں بندھا ان کا گدھا رینکنے لگا۔ دوست تعجب سے کہنے لگا’’تم کہتے ہو کہ تمھارے پاس گدھا نہیں مگر تمھارے گھر سے رینکنے کی آواز آ رہی ہے


بہلول کہنے لگے:’’تم بڑے احمق اور غبی ہو۔ میں چالیس سال سے تمھارا دوست ہوں مگر تم میری بات نہیں مانتے بلکہ ایک گدھے کی سن رہے ہو۔




پٹرول آج 36 روپے لیٹر سستا ہونے کا امکان

 

اسلام آباد: پٹرول کی قیمت میں آج 36 روپے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 19 روپے فی لیٹر کم ہونے کا امکان ہے۔


پٹرول کی قیمت میں (آج) اتوار کو 36 روپے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 19 روپے فی لیٹر کمی متوقع ہے۔


یہ بھی پڑھیں: پٹرول کی قیمت فی لیٹر 300 روپے سے نیچے آنے کا امکان

پٹرول کی ایکس ریفائنری قیمت 36 روپے کمی سے 206 روپے فی لیٹر ہو گئی جبکہ ڈیزل کی ایکس ریفائنری قیمت بھی 19 روپے کم ہو کر 233 روپے ہو گئی ہے۔


معاشی ماہرین کے مطابق پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل بہتری کے باعث بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کا امکان ہے۔

عالمی بینک کا ایف بی آر کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار



اسلام آباد: عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں

رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعدادایک کروڑ کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے، لیکن ان میں سے صرف 44 لاکھ نے ہی سالانہ ٹیکس ریٹرن جمع کرائے ہیں۔


پاکستان کے لیے عالمی بینک کے 40 کروڑ ڈالر سے ریونیوبڑھانے کے منصوبے کی عملدرامد رپورٹ میں کہا گیا کہ کمزور ٹیکس اسٹرکچر پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد اور کمپنیوں پر سارا بوجھ لاد رہا ہے۔


جون 2023 میں ٹوٹل ٹیکس دہندگان کی تعداد 98 لاکھ تھی، جبکہ ایکٹیو انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد 44 لاکھ تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایف بی آر میں رجسٹرڈ 54لاکھ ٹیکس دہندگان نے سالانہ انکم ٹیکس جمع نہیں کرائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آر 55 فیصد رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان سے وصولیاں کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ورلڈ بینک کا ایف بی آر کے اصلاحاتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریٹرنز جمع کرانے والوں میں سے بھی صرف 23 لاکھ افراد نے ٹیکس جمع کرایا ہے، جو رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کا 24 فیصد بنتے ہیں، مالی سال 2022 میں 80لاکھ افراد ایف بی آر میں رجسٹرڈ تھے، جن میں سے صرف 3 ملین افراد نے ریٹرنز جمع کرائے تھے۔


30 ستمبر تک صرف 2 ملین افراد نے ٹیکس ریٹرنز جمع کرائے ، جس کے بعد ایف بی آر نے ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کی تاریخ میں 31 اکتوبر تک توسیع کردی، جو کہ قانون کی کمزور عملداری کی نشاندہی کرتا ہے۔


یہ بھی پڑھیں: ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع


عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ میں ایف بی آر کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ٹیکس نیٹ میں اضافے کیلیے ایف بی آر کو مزید کاوشیں کرنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ٹیکس بیس کو موجود قوانین پر عملدارمد کرکے بڑھا سکتا ہے اس کیلئے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔


رپورٹ کے مطابق ٹیکس بقایاجات وصولی کیلئے طے ہوا تھا کہ ایف بی آر کے گریڈ 17کے 40فیصد افسران کو ٹیکنیکل تربیت دی جائیگی اور اپنے آئی سی ٹی آلات کو جدید آلات سے بدلا جائیگا مگر ابھی تک اس پر عملدرامد نہیں کیا جاسکا

 *ساہیوال کرپٹ مافیا کے اوچھے ہتھکنڈے طوالت اختیار کرنے لگے*


*اپنے سیاہ کرتوت چھپانے کیلئے کرپٹ مافیا آفسران کو غلط گائیڈ کرنی لگی*


*اقربا پروری،رشوت ستانیاں،کرپشن عروج پر انصاف عام آدمی کی پہنچ سے دور*


*معاشرتی سدھار کے لیے سرکاری دفاتر کا رُخ کرنے والے شہری تنقیدی نشانوں پر*



*ساہیوال(سبطین اکبر بخاری) تفصیلات کے مطابق ساہیوال میں کرپٹ مافیا کے اوچھے ہتھکنڈے طوالت اختیار کر گئے اقربا پروری، رشوت ستانیاں، کرپشن، سمیت ٹاؤٹ مافیا اور سفارشی ٹالوں نے انصاف عام آدمی کی پہنچ سے صدیوں دور کر دیا گڈ گورننس اور عوامی نمائندگی کے دعویدار عوامی مسائل سے بے خبر سب اچھے کی رپورٹس دینے میں مصروف۔۔ جبکہ ہر محکمے میں رشوت، کرپشن، اور بے ضابطگیوں کے بازار مسلسل گرم۔۔ اپنے مفادات کے لیے ماتحت عملہ اپنے اپنے اداروں کے آفسران کو غلط بریف کرتے ھوئے میرٹ و انصاف کی دھجیاں بکھیرنے میں مصروف۔۔ معاشرتی سدھار کے لیے سرکاری دفاتر کا رُخ کرنے والے شہریوں کو شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا گویا ہر شاخ پہ بیٹھا ھے الو کے مترادف صورتحال انتہائی سنگین تر ھو گی۔۔ کرپٹ مافیا کی جانب سے صرف نوٹوں کو سلام کیا جانے لگا۔۔ سرکاری کرسیوں پر بیٹھ کر سرکار سے تنخواہیں لینے والے سرکاری گدِھ عوام کے لیے ہٹلر جبکہ سیاسیوں کے مالشی بن کر رہ گئے۔۔ ہر طرف عوامی مسائل جوں کے توں۔۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ھو کر رہ گی خود ساختہ مہنگائی نے غریب گھرانوں کا جینا مشکل کر دیا۔۔ انصاف کے حصول کے لیے سائلین کئی کئی ماہ ذلیل و خوار ھونے پر مجبور عام آدمی کی عزت و نفس مسلسل مجروح ھونے لگی حقائق کی آواز اٹھانے اور کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کے بارے میں افسران کو کرپٹ مافیا غلط بریف کرنے لگی اپنے سیاہ کرتوت اور مکروہ حرکات چھپانے کے لیے معاشرتی سدھار کے لیے آواز اٹھانے والوں کو کھلم کھلا غلط قرار دیا جانے لگا پرائیویٹ ٹاؤٹ مافیا اور رشوت خور ٹیمیں مل کر اعلیٰ آفسران اور انتظامیہ کو مسلسل غلط گائیڈ کرتے ھوئے پنجاب حکومت کے منشور کو پاؤں تلے روندنے میں مصروف۔۔ جبکہ عوامی مسائل کے حل کے لیے سرکاری کرسیوں پر بیٹھے آفسران تک عام آدمی کی رسائی ناممکن بنا دی گئی اہلیانِ ساہیوال کا پنجاب حکومت سے نوٹس لے کر عوامی مسائل کے حل کا پرزور مطالبہ۔۔۔*

ملتان۔ مسلم لیگ ن کا ورکر کنوشن

 ملتان۔ مسلم لیگ ن کا ورکر کنوشن


ملتان۔ پارٹی رہنماوں کی آپسی لفظی گولہ باری کی ذد میں آگیا


ملتان۔ عبدالغفار ڈوگر۔چوہدری عبدالوحیدآرائیں۔سینیٹر رانا محمود الحسن نے ایک دوسرے پر خوب لفظوں کے تیر برسائے


ملتان۔ میزبان رانا اقبال سراج کو مائیک ملا تو بھی پیچھے نہ رہے


ملتان۔21 اکتوبر کو این اے 151 سے جتنے لوگ نکلیں گے پورے ملتان سے نہیں نکلیں گے۔ سابق مشیر وزیر اعظم عبدالغفار ڈوگر


ملتان۔ یہ کسی کا حلقہ نہیں نواز شریف کا حلقہ ہے۔ووٹ نواز شریف کا ہے۔ سابق صوبائی وزیر چوہدری عبدالوحید آرائیں


ملتان۔ ٹکٹیں بانٹنے کا کام ہم نواز شریف کے سپرد چھوڑتے ہیں عبدالغفار ڈوگر


ملتان۔ عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے۔چوہدری عبدالوحید آرائیں


ملتان۔ آج جو لوگ رانا اقبال سراج کو اسمبلی میں پہنچانا چاہتے ہیں کل وہ اسے کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ ملک عبدالغفارڈوگر


ملتان۔ جن کی نظریں خدا پر ہوتی ہیں وہ زمینی خداوں سے نہیں ڈرتے۔ چوہدری عبدالوحید آرائیں


ملتان۔ نواز شریف ہر وقت ہماری اپروچ میں ہے۔ ملک عبدالغفارڈوگر


ملتان۔ پھر اکھٹے ہونگے باقی باتیں پھر کروں گا۔عبدالغفار ڈوگر


ملتان۔جو محسن کش ہو ﷲ اس کو عزت نہیں دیتا۔ چوہدری عبدالوحید آرائیں


ملتان۔ میں نے اپنے ٹکٹ کی بات ﷲ پر چھوڑی ہے۔ سابقہ لیگی ٹکٹ ہولڈر اقبال سراج


ملتان۔ یہاں لوگ ٹکٹ کو اہمیت دیتے ہیں خدمت کو نہیں۔اقبال سراج


ملتان۔ آپ لوگ اپنی لڑائی ختم کریں خدا کے واسطہ۔اقبال سراج


ملتان۔ آپ ان لوگوں کو ڈراتے ہیں جنھوں نے آپ کو عزت دی اقبال سراج

سعودیہ نے اسرائیل کیساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے بات چیت معطل کردی

 سعودی عرب بات چیت کا خاتمہ نہیں کررہا البتہ فلسطین میں جاری لڑائی کے رکنے تک بات چیت کو روکا گیا ہے:غیر ملکی میڈیا/ فائل فوٹو

ریاض: سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کیلئے جاری بات چیت کو معطل کردیا۔


غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیل کے فلسطین پر پے درپے حملوں اور غزہ میں ہونے والی تباہی کے بعد سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے کی جانے والی بات چیت کو معطل کردیا جس سے امریکا کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔


اس سلسلے میں خبر رساں ادارے رائٹرز اور بلوم نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب بات چیت کا خاتمہ نہیں کررہا البتہ فلسطین میں جاری لڑائی کے رکنے تک بات چیت کو روکا گیا ہے۔

اک بھارت ٹاکرا: پاکستانی بیٹنگ لائن بری طرح ناکام، پوری ٹیم 191 پر ڈھیر ہوگئی

 

فوٹو: ای ایس پی این
فوٹو: ای ایس پی این

آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کے سب سے بڑے ٹاکرے میں پاکستان نے بھارت کو  جیت کے لیے 192 رن کا ہدف دیا ہے۔

احمد آباد کے نریندر مودی کرکٹ اسٹیڈیم میں بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا۔

بھارت کے خلاف پاکستان کی بیٹنگ لائن بری طرح  ناکام رہی اور  پوری پاکستانی  5 اوور میں    191 رن پر ڈھیر ہوگئی۔

امریکی ارکان کانگریس کا بائیڈن کو خط، غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار

 



امریکی ارکان کانگریس کا بائیڈن کو خط، غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار

 
فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

غزہ کی صورت حال پر  امریکی کانگریس کے ارکان نے صدر بائیڈن کو  خط لکھ کر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق ارکان کانگریس نے صدر  بائیڈن کو  خط لکھ کر کہا ہےکہ اسرائیل کے  حملوں سے غزہ کی صورت حال پر  شدید  تشویش ہے، شمالی غزہ سے لاکھوں فلسطینیوں کے انخلا اور اس کے خطرناک نتائج  پر تشویش ہے۔

 امریکی ارکان کانگریس نے مطالبہ کیا ہےکہ غزہ میں عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکا جائے، فلسطین اور اسرائیل دونوں طرف کے شہریوں کا جانی نقصان روکا جائے، غزہ کی مکمل ناکابندی کے اسرائیلی فوج کے بیان پر بھی تشویش ہے، صدر بائیڈن اسرائیل کی غزہ  کے لیے 

انسانی ضروریات بند کرنےکے معاملےکو دیکھیں

آج ہی نوٹس لیجئے

 *آج ہی نوٹس لیجئے* ______ ✍️ *نذر حافی* _________ یہ آپ کے اپنے ہم وطن اور بہن بھائی ہیں۔ یہ مجرم نہیں بلکہ مسافر ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کے پ...