اسلام آباد: عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں
رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعدادایک کروڑ کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے، لیکن ان میں سے صرف 44 لاکھ نے ہی سالانہ ٹیکس ریٹرن جمع کرائے ہیں۔
پاکستان کے لیے عالمی بینک کے 40 کروڑ ڈالر سے ریونیوبڑھانے کے منصوبے کی عملدرامد رپورٹ میں کہا گیا کہ کمزور ٹیکس اسٹرکچر پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد اور کمپنیوں پر سارا بوجھ لاد رہا ہے۔
جون 2023 میں ٹوٹل ٹیکس دہندگان کی تعداد 98 لاکھ تھی، جبکہ ایکٹیو انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد 44 لاکھ تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایف بی آر میں رجسٹرڈ 54لاکھ ٹیکس دہندگان نے سالانہ انکم ٹیکس جمع نہیں کرائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آر 55 فیصد رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان سے وصولیاں کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ورلڈ بینک کا ایف بی آر کے اصلاحاتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریٹرنز جمع کرانے والوں میں سے بھی صرف 23 لاکھ افراد نے ٹیکس جمع کرایا ہے، جو رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کا 24 فیصد بنتے ہیں، مالی سال 2022 میں 80لاکھ افراد ایف بی آر میں رجسٹرڈ تھے، جن میں سے صرف 3 ملین افراد نے ریٹرنز جمع کرائے تھے۔
30 ستمبر تک صرف 2 ملین افراد نے ٹیکس ریٹرنز جمع کرائے ، جس کے بعد ایف بی آر نے ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کی تاریخ میں 31 اکتوبر تک توسیع کردی، جو کہ قانون کی کمزور عملداری کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع
عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ میں ایف بی آر کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ٹیکس نیٹ میں اضافے کیلیے ایف بی آر کو مزید کاوشیں کرنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ٹیکس بیس کو موجود قوانین پر عملدارمد کرکے بڑھا سکتا ہے اس کیلئے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹیکس بقایاجات وصولی کیلئے طے ہوا تھا کہ ایف بی آر کے گریڈ 17کے 40فیصد افسران کو ٹیکنیکل تربیت دی جائیگی اور اپنے آئی سی ٹی آلات کو جدید آلات سے بدلا جائیگا مگر ابھی تک اس پر عملدرامد نہیں کیا جاسکا
No comments:
Post a Comment