بغداد کا باہوش دیوانہ

 وہ اُس دور میں حکومت ِوقت پر کھلے بندوں تنقید کرتا رہا جب زبان

کا تصّور بھی عنقا تھا ۔ فوٹو : فائل 

بہلول تاریخ کے ایک یگانہ روزگار کردار گذرے ہیں۔تاریخِ عرب میں اس نام کے کئی اور لوگوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے لیکن بہلول سے مراد وہ صوفی ہیں جنہوں نے دیوانگی کا مفہوم بدل دیا اور لوگوں کو دانش مندی کے معنی سمجھائے۔ تاریخ کے صفحات میں وہ واحد دیوانے ہیں جو دانائے راز ہیں اور جنہوں نے دانشمندوں کو حکمت و دانش سکھائی۔ انہوں نے ایک ایسی انوکھی راہ چنی جو آج تک کسی کے قدموں سے پامال نہیں ہوئی۔


اصل نام واہب بن عمرو تھا‘ جائے ولادت کوفہ بیان کی گئی ہے۔ بغداد کے دولت مندوں میں شامل تھے۔ بعض روایات میں انہیں عباسی خلیفہ ہارون رشید کا رشتہ دار لکھا گیا ہے۔ امام جعفر صادق ؒکے شاگردوں میں سے تھے۔


آپ نے ان کے فرزند امام موسیٰ کاظم ؒ کا زمانہ بھی دیکھا۔ مورخین کے بقول وہ ہارون رشید کے عہد کے دانشمندوں میں سے ہیں جو کسی مصلحت کے تحت دیوانہ بن گئے تھے۔بہلول جرات و بے باکی‘ حق گوئی اور مظلوموں کی حمایت کے علمبردار تھے۔ آپ اس دور میں حکمران طبقے پر کھلے بندوں تنقید کرتے جب کوئی اس کے خلاف زبان کھولنے کا تصّور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ان کی بے مثال دانشمندی اور ذہانت نے کبھی یہ موقع نہیں دیا کہ ان کے کسی لفظ پر بھی گرفت کی جا سکے۔

بہلول کا پہلا ذکر مشہور عرب فلسفی الجاحظ کی کتاب ’البیان‘ میں ملتا ہے۔ حکایات کے مطالعے سے ان کے جو خدوخال ابھرتے ہیں وہ ایک غیر معمولی ذہین‘ دانشمنداور طباغ شخص کے ہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں خدارسیدہ عالم‘ نابغہ روزگار اور بہترین حس مزاح رکھتے تھے۔ اس دور کے حالات اور معاشرت پر ان کی نگاہ گہری تھی۔


وہ حیرت انگیز شگفتہ برجستگی کے ساتھ اپنی دیوانگی کابھرم بھی رکھتے ۔دیوانگی کے پردے میں چھپی دانش بھی لوگوں پر عیاں کر جاتے۔ آپ نے دیوانگی اور فرزانگی کو کچھ ایسے کراماتی انداز میں ہم آہنگ کیا کہ وہ نہ صرف ان کی جان کی ضامن بنی بلکہ مظلوموں کی حمایت کا ایک موثر ذریعہ اور حکومت وقت پر کھلی تنقید بھی بن گئی۔


شگفتگی‘ زندہ دلی اور بذلہ سنجی نے انہیں اس دور کا ایک ہردلعزیز کردار بنا دیا۔ تاریخ کے صفحات میں آپ ایک ایسامحیرالعقول کردار ہیں جو دیوانہ ہے اور لوگ ان کے فضل و کمال کے قائل بھی ہیں۔ آپ پاگل کہلاتے مگر مشکل مسئلوں میں ان کی رائے کو اہمیت بھی دی جاتی۔ بہلول دانا کے دلچسپ وسبق آموز واقعات پہ مشتمل ایک انگریزی کتاب حال ہی میں طبع ہوئی ہے۔ اس میں سے منتخب واقعات پیش خدمت ہیں۔


ایک دن بہلول ہارون رشید کے محل پہنچے تو دیکھا کہ مسند خالی ہے اور کوئی روک ٹوک کرنے والا بھی نہیں‘ فوراً بے کھٹکے اوپر گئے اور ہارون رشید کی جگہ تخت پر بیٹھ گئے۔جب درباری غلاموں نے یہ دیکھا تو فوراً بہلول کو کوڑے مار کر ہارون رشید کی مسند سے نیچے لے آئے۔ درد کی شدت کے باعث بہلول کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔ اسی وقت ہارون آ پہنچا‘ دیکھا کہ بہلول رو رہے ہیں۔ اس نے پاسبانوں سے ان کے رونے کا سبب پوچھا۔ غلام نے پوری کیفیت کہہ سنائی۔ ہارون رشید نے انہیں ڈانٹا اور بہلول کی دل جوئی کی۔


بہلول نے کہا ’’میں اپنے نہیں تیرے حال پر رو رہا ہوں، اس لیے کہ میں تیری جگہ صرف چند لمحے ہی بیٹھا مگر اتنی مارکھائی اور مصیبت جھیلی اور تو جو عمر بھر سے اس مسند پر بیٹھا چلا آرہا ہے پھر بھی اپنے انجام کی فکر نہیں کرتا‘‘۔


٭٭


کہتے ہیں کہ ایک دفعہ بہلول بصرہ گئے۔ چونکہ اس شہر میں ان کا کوئی ملاقاتی نہیں تھا لہٰذا انہوں نے تھوڑے دنوں کے لئے ایک کمرہ کرائے پر لے لیا۔ لیکن وہ اتنا پرانا تھا کہ ذرا سی تیز ہوا چلنے پر لرزنے لگتا۔ بہلول مالک مکان کے پاس گئے اور کہا ’’آپ نے مجھے جو کمرا دیا وہ بے حد خطرناک ہے کیونکہ تیز ہوا چلنے پر اس کی چھت اور دیواریں بولنے لگتی ہیں‘‘۔


مالک مکان مزاحیہ قسم کا تھا‘ کہنے لگا ’’یہ کوئی برائی نہیں‘ آپ جانتے ہیں کہ تمام موجودات ہر وقت خدا کی تعریف کرتی اور تسبیح پڑھتی ہیں اور یہ کمرے کی حمدو تسبیح ہے‘‘۔


بہلول نے کہا ’’یہ درست ہے لیکن موجودات تسبیح اور تحلیل کے آخر میں سجدہ بھی کرتی ہیں اور میں کمرے کے سجدے کے ڈر سے بچناچاہتا ہوں۔‘‘


٭٭


بہلول اکثر قبرستان میں بیٹھے رہتے تھے۔ایک روز ہارون کا اس طرف سے گزر ہوا۔ بہلول پر نگاہ پڑی تو سواری ٹھہرائی اور پوچھا ’’بہلول !یہاں کیا کر رہے ہو‘‘۔


’’میں ایسے لوگوں سے ملاقات کرنے آیاہوں جو نہ لوگوں کی غیبت کرتے ہیں‘ نہ مجھ سے کوئی امید یا توقع رکھتے اور نہ کسی کو کوئی تکلیف دیتے ہیں۔‘‘ بہلول نے وضاحت کی۔


ہارون نے گہراسانس لیا اور دریافت کیا ’’تم مجھے پل صراط سے گزرنے اور اُس دنیا میں سوال وجواب کی کچھ خبردے سکتے ہو‘‘؟


’’یقینا‘ لیکن اس کے لیے تھوڑا اہتمام کرنا ہوگا‘ کیا عالی جاہ اس کا انتظام کر دیں گے؟‘‘ بہلول نے پوچھا۔


’’ہاں‘ ہاں‘ تم بتاؤ،میں ابھی حکم دیتا ہوں۔‘‘ ہارون نے جواب دیا۔


’’ عالی جاہ! اپنے ملازموں کو حکم دیں کہ یہاں آگ جلائیں‘ اس پر ایک بڑا توا رکھیں اور اسے گرم ہو کر سرخ ہوجانے دیں‘‘۔ بہلول نے بتایا۔


’’بہلول کی فرمائش پوری کی جائے‘‘۔ ہارون نے فرمان شاہی جاری کیا۔ ملازموں نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔


بہلول نے کہا ’’عالی جاہ! پہلے میں اس توے پر ننگے پاؤں کھڑا ہوں گا اور اپنا تعارف کراوں گا ۔یعنی میرا نام‘ لباس اور میری خوراک کیا ہے؟ اس کے بعد اسی طرح آپ بھی توے پر کھڑے ہو کر اپنا تعارف کروائیں گے۔‘‘


ہارون کو کچھ تامل تو ہوا لیکن اس نے یہ شرط منظور کر لی اور بہلول سے بولا ’’تم پہل کرو‘‘۔


بہلول تیزی سے توے پر کھڑے ہوئے اور جلدی سے بولے ’’ بہلول‘ خرقہ‘ جو کی روٹی اورسرکہ‘‘۔ یہ چند لفظ کہہ کر وہ جھٹ توے سے نیچے اتر آئے۔ چند لمحوں میں ان کے پیر جلنے سے محفوظ رہے جو پتھریلی راہوں پر اکثر برہنہ چلنے کے باعث اپنی حساسیت سے محروم ہو چکے تھے۔



اب ہارون کی باری آئی‘ وہ توے پر چڑھا اور شاہی القاب کے ساتھ اپنا نام بھی نہیں بتا پایا تھاکہ اس کے پیر جلنے لگے۔ وہ گرتا پڑتا توے سے نیچے اتر ا اور بولا ’’بہلول! تم نے مجھے کس عذاب میں ڈال دیا ‘‘۔


بہلول مسکرا کر بولے ’’آپ ہی نے فرمائش کی تھی کہ قیامت کے سوال وجواب کے بارے میں بتایا جائے۔ مگر آپ تو گرم توے کی تپش برداشت نہیں کر سکے‘ اُس وقت کی حدت کیونکر برداشت کریں گے؟ جو لوگ خداپرست اوردنیا کے جاہ و حشم سے دور ہیں اور لالچ طمع نہیں رکھتے‘ وہ تو پل صراط سے آرام کے ساتھ گزرجائیں گے لیکن جو دنیاوی شان و شوکت میں ڈوبے ہوئے ہیں‘ انہیں اسی عذاب سے گزرنا ہو گاجس طرح کے ہلکے عذاب سے آپ ابھی گزرے۔‘‘


٭٭


ایک دفعہ بہلول بچوں کے ہجوم میں بچہ بنے دیوانے جیسی حرکتیں کرتے ایک ویرانے میں پہنچ گئے۔ وہ بچوں کے ساتھ ساتھ دوڑ کر ہانپ گئے تھے اور کچھ تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے۔ وہ اپنے عصا کے فرضی گھوڑے سے اترے اور بچوں سے بولے:


’’میراگھوڑا تھک گیا ہے‘ اسے بھوک بھی لگی ہے۔‘‘ انہوں نے پھر عصا کو گھوڑے کی طرح چمکار کر کھنڈر کی شکستہ دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا۔



بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔وہ پھر کچھ دیر ان کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے رہے۔ جب بہلول نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تو وہ ایک ایک کر کے اپنے گھر لوٹ گئے۔ بہلول نے مگر اسی کھنڈر میں ڈیرا جمالیا۔ ان کی عدم موجودگی سے گھر والے پریشان ہوگئے۔عزیز رشتہ داراکھٹے ہوئے اور لوگوں سے پوچھتے‘ معلوم کرتے اسی کھنڈر تک آپہنچے جہاں انہوں نے بسیرا کیا تھا۔



دیکھا کہ وہ ننگی زمین پر اپنے بازو کا تکیہ بنائے چین کی نیند سو رہے ہیں۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ان کے عزیزوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کچھ اظہار افسوس کرنے لگے۔ ایک نے جھک کر بہلول کا شانہ ہلایا اور بولا: ’’واہب! اٹھو جنون کی اس نیند سے جاگو‘ آنکھیں کھولو۔‘‘


بہلول نے نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اپنے چاروں طرف جمع شناسا چہروں کو دیکھا جن پر دکھ اور تفکر کی لکیریں تھیں۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘ انہوں نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔


ایک عزیز نے قریب بیٹھ کر ان کی عبا سے گرد جھاڑتے ہوئے کہا ’’واہب اٹھو‘ گھر چلو۔‘‘




’’یہ بھی تو گھر ہے۔‘‘ بہلول نے کھنڈر کی ٹوٹی دیواروں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’بھلا اس میں کیا کمی ہے؟نہ ہمسائے کا جھگڑا‘ نہ مالک مکان کا خوف‘ نہ دربان کی مصیبت‘ نہ چور کا ڈر!‘‘


’’ہماری بات سمجھنے کی کوشش کرو‘ یہ جگہ تمہارے شایان شان نہیں‘‘۔ ان کے رشتہ دار پریشان ہو گئے

’’یہ جگہ میرے شایان شان کیوں نہیں‘ یہ تو خلیفہ کے محل سے بھی بہتر ہے کہ روزمحشر مجھ سے اس کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ تو نہیں ہو گی۔‘‘


ان کے رشتہ دار زچ ہو گئے‘ انہوں نے بہتیری کوشش کی کہ انہیں گھر لے جائیں لیکن وہ قطعاً رضامند نہیں ہوئے۔


٭٭


ایک دن بہلول کا دوست گندم پسوا کر اپنے گدھے پہ لادے آ رہا تھا۔ بہلول کے گھر کے سامنے پہنچا تو اس کا گدھا اچانک تھکن کے مارے گر پڑا۔ دوست نے بہلول سے کہا کہ اپنا گدھا اسے دے دیں تاکہ وہ اس پہ آٹا لاد سکے۔


بہلو ل نے طے کر رکھا تھا کہ وہ کسی کو اپنا گدھا نہیں دیں گے۔ کہنے لگیـ’’میرے پاس گدھا نہیں ہے۔‘‘


اتفاق سے گھر کے صحن میں بندھا ان کا گدھا رینکنے لگا۔ دوست تعجب سے کہنے لگا’’تم کہتے ہو کہ تمھارے پاس گدھا نہیں مگر تمھارے گھر سے رینکنے کی آواز آ رہی ہے


بہلول کہنے لگے:’’تم بڑے احمق اور غبی ہو۔ میں چالیس سال سے تمھارا دوست ہوں مگر تم میری بات نہیں مانتے بلکہ ایک گدھے کی سن رہے ہو۔




No comments:

Post a Comment

آج ہی نوٹس لیجئے

 *آج ہی نوٹس لیجئے* ______ ✍️ *نذر حافی* _________ یہ آپ کے اپنے ہم وطن اور بہن بھائی ہیں۔ یہ مجرم نہیں بلکہ مسافر ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کے پ...