آج ہی نوٹس لیجئے

 *آج ہی نوٹس لیجئے*

______

✍️ *نذر حافی*

_________



یہ آپ کے اپنے ہم وطن اور بہن بھائی ہیں۔ یہ مجرم نہیں بلکہ مسافر ہیں۔

یہ اکیسویں صدی کے پاکستان میں آپ سے رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ملک کے اندر کی صورتحال جہاں اپنی جگہ ابتر ہے وہیں پاکستانی بارڈرز پر عوام کو جانوروں کی طرح ذلت کا سامنا کرنا پڑ ہے۔ 

آپ جو بھی ہیں، لکھاری، سیاستدان، حکومتی ملازم، عالم دین۔۔۔ آپ جو بھی ہیں ان مظلوموں کی بات تو سنیں۔۔۔

تفتان بارڈر پر عوام ساتھ پیش آنے والے سرکاری اہلکاروں کا رویہ کچھ ایسا ہے کہ لگتا ہے انسانیت دفن ہو چکی ہے ۔ بارڈر پر عوامی شکایات کے اندراج اور فیڈ بیک کا کوئی نظام نہیں۔لوگوں کے ساتھ سرکاری کارندے کیسے پیش آ رہے ہیں، اس کی مانیٹرنگ نہیں ہو رہی۔ عوام کو وہاں کیا کیا مشکلات ہیں، انہیں جاننے، سمجھنے اور حل کرنے کا کوئی بندوبست نہیں۔

سرکار اور حکومت کی بات چھوڑیں بطور انسان تو ہمیں ایک دوسرے پر رحم کرنا چاہیے۔

 

ہماری انسان ہونے کے ناتے حکام بالا سے درخواست ہے کہ اگر پاکستان کے لاکھوں پروفیشنلز نیز ہزاروں مودّب و با اخلاق اہلکاروں میں سے صرف چند مہربان، انسانیت دوست، اور فرض شناس افیسرز کو تفتان بارڈر پر تعینات کر دیا جائے تو اس سے سالانہ ہزاروں انسان آپ کیلئے دعا کریں گے اور پاکستان کی کارکردگی، گڈ گورننس اور بیٹر منٹ میں اضافہ ہو گا۔ یقین جانئے آپ کا بظاہر یہ چھوٹا سا قدم، عوام اور تاریخ پاکستان کے اعتبار سے ایک بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔۔۔


کاش ہمارے حکمران ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی پر ہی کچھ قابو پاکر دکھائیں، سڑکوں اور گلیوں میں راہ چلتے ہوئے اسلحے کے زور پر وارداتیں اور ڈکیتیاں، ملاوٹ اور مہنگی ادویات ۔۔۔کچھ اسی درد کا ہی درمان ہو جائے۔

*اگر کچے کےڈاکو حکومت کی پہنچ سے دور ہیں تو تفتان کے صوفی صاحب تو ہماری سرکار کے اپنے اہلکار ہیں۔*

 ان کے بارے میں ہی عوامی شکایات کے باعث از خود نوٹس لیا جانا چاہیے۔


ہم سے زیادہ ہمارے سیکورٹی ادارے اس وقت تفتان کی تازہ صورتحال سے آگاہ ہیں۔ ہماری ان سے گزارش ہے کہ پہلی فرصت میں تفتان بارڈر پر عوام کی بے عزّتی اور سرکاری کارندوں کی رشوت خوری کی عوامی شکایات کے ازالے کا بندوبستی کریں، مانیٹرنگ کریں اور فوری نوٹس لیں۔تفتان روٹ پر کئی سالوں سے عوامی مشکلات اور شکایات اربابِ اقتدار کی توجہ کی طالب ہیں۔ ۔۔

*آج کی تازہ اطلاعات کے مطابق تفتان باڈر کی صورت حال واقعاً بہت خراب ہے۔*

👇❗

1۔ ناقص صورتحال مثلاً گندگی سے بھرے ہوئے واشرومز، وضوخانہ بھی خراب و بدبودار۔۔۔۔

رات کو اندر شدید گرمی ہوتی ہے جس کے باعث لوگوں کو باہر فرش پر سونا پڑتا ہے۔

کھانا مہنگا اور باسی قسم کا ہوتا ہے۔۔۔۔

سامان کی حفاظت بھی دشوار۔۔۔۔

کانوائے کی بسیں بھی کھٹارا قسم کی۔۔۔۔۔


2۔ اس ماحول میں کتنے دن رہنا ہے، یہ بھی نامعلوم۔۔۔۔۔

آج 14 جون کو صبح کانوائی جانا تھی مگر کبھی کہتے ہیں کہ کینسل ہوگئی ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ تین بجے۔۔۔۔

ہماری اپنے ملکی اداروں سے گزارش ہے کہ یہ لوگ آپ کی دھرتی ماں کی اولاد اور قومی طور پر آپ کے اپنے بہن بھائی ہیں۔ ان پر رحم کریں۔۔۔ رحم کریں۔

 *وحشیانہ سلوک صرف کچے کے ڈاکو نہیں کرتے*

✍️۔۔۔۔۔۔۔۔

فیڈ بیک

nazarhaffi@gmail.com

سکھر(نمائندہ پاکستان آن لائن نیوز ایچ ڈی سیدضیاءالرحمٰن) سکھر اسمال ٹریڈرز کے صدر حاجی محمد جاوید میمن نے کہا ہے کہ چھوٹے تاجر ملکی معیشت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، تاجروں کے مسائل حل کیے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں،ٹیکسز کی بھر مار، حکومتی اور محکمہ ایف بی آر کی پالیسیوں کی وجہ سے صنعت و تجارت کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے، حکومت ملک میں معاشی استحکام کیلئے آئندہ پیش کردہ بجٹ میں تاجروں کی تجاویز کو مد نظر رکھ کر مرتب کریں، بجلی، گیس کی قیمتوں میں کمی، ناجائز ٹیکسز کے خاتمے سمیت چھوٹے تاجروں کی فلاح و بہبود کیلئے ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں جس سے صنعت و تجارت کاروبار کو فروغ دیکر ملک کو ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن کیا جاسکے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے انجمن تاجران غریب آباد کی جانب سے سکھر اسمال ٹریڈرز کے نومنتخب عہدیداران کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر انجمن تاجران غریب آباد کی جانب سے حاجی محمد جاوید میمن کو مسلسل چوتھی مرتبہ سکھر اسمال ٹریڈرز کا صدر، حاجی غلام شبیر بھٹوکو سرپرست اعلیٰ، محمد عامر فاروقی کو جنرل سیکریٹری، حاجی عبدالستار راجپوت کو سینئر نائب صدر، محمد منیر میمن کو نائب صدر،محبوب صدیقی کو ایڈیشنل جنرل سیکریٹری، اعظم خان کو جوائنٹ سیکریٹری،ڈاکٹر سعید اعوان کو پریس سیکریٹری،شاہد مگسی کو آفس سیکریٹری منتخب ہونے پر پھولوں کے ہار پہنا کر مبارکباد دی اور سندھ کا روایتی تحفہ اجرکیں، پیش کیں، تقریب میں انجمن تاجران غریب آباد کے محمد منیر بھٹی، سرفرازصدیقی، ندیم بھٹی، وزیر خان، خدادا و دیگر نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حاجی محمد جاوید میمن کا مزید کہنا تھا کہ سکھر اسمال ٹریڈرز شہر کے تاجروں کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے، جس میں شہر بھر کی تجارتی تنظیمات شامل ہیں، ہمارا ماضی حال سب کے سامنے ہے ہم نے ہمیشہ تاجروں کے مسائل کے حل کیلئے مثالی جدوجہد کی ہیں انشاءاللہ آئندہ بھی اسی جذبے کے ساتھ چھوٹے تاجروں کیلئے اپنی خدمات انجام دیتے رہینگے، ان کا کہنا تھا کہ تاجر برادری اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کو برقرار رکھیں تاکہ مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ان کے مسائل بہتر انداز سے حل کرائے جاسکیں، قبل ازیں غریب آباد پہنچنے پر حاجی محمد جاوید میمن و دیگر رہنماﺅں کا والہانہ پرتپاک استقبال کیا گیا، جگہ جگہ پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے تاجر اتحاد زندہ باد کے نعرے بھی لگائے۔ 



 سکھر ( پاکستان آن لائن نیوز ایچ ڈی سیدضیاءالرحمٰن )چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ( بی آئی ایس پی ) محترمہ روبینہ خالد سکھر اور خیرپور کے دورے پہنچیں۔ انہوں نے سکھر میں واقع بی آئی ایس پی بچل شاہ کیمپ سائٹ کا دورہ کیا۔ انہوں نے کیمپ سائٹ پر موجود خواتین سے ملاقات کی اور ان کے مسائل سنے۔ مستحق خواتین کے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کیلئے متعلقہ افسران کو احکامات جاری کئے۔ چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ( بی آئی ایس پی ) محترمہ روبینہ خالد نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پورے پاکستان میں 95 لاکھ سے زاہد ہمارے بینیفیشری ہیں، ہم نے کیمپ سائیٹ کا اس دفعہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ کیوں کہ ہمیں بہت سی شکایتیں موصول ہوئی تھیں کہ قسط میں سے کٹوتی کی جا رہی ہے۔ دکاندار اپنی من مانی کر رہے ہیں اور کٹوتی کر رہے تھے ، ہم نے اس لیے کیمپ سائیٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں ہمارا عملہ بھی موجود ہوتا ہے، جو غیر قانونی کٹوتی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ محترمہ روبینہ خالد نے مزید کہا کہ صاف اور شفاف ٹرانزیشن کو یقینی بنانے کیلئے کیمپ سائٹ کے بعد ہم انشاءاللہ بینک اکاوُنٹس کی طرف چلے جائیں۔اس کا مقصد ہے کہ لوگ ڈائریکٹ بینک جائیں پیسے وہاں سے لیں، یہ جو بیچ میں ریٹیلرز اور ایجنٹس ہیں ان کا کردار ختم ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا جو اسکور 32 ہے پی ایم ٹی ہے، اگر وہ اس سے نکل جاتے ہیں تو وہ ہمارے بینیفیشری میں نہیں ہونگے۔ہم اس کے علاوہ یہ بھی کوشش کر رہے ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ایک شعبہ وسیلہ روزگار ہم وہ بھی شروع کرنے جا رہے ہیں تاکہ ہم لوگوں کو اچھی زندگی گزارنے کے لیے کوئی روزگار یا کوئی ٹریننگ دے سکیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اگلی قسط بینکوں کے ذریعے کریں۔اس سلسلے میں مختلف بینکوں کو بھی شامل کر رہے ہیں تاکہ ایک بینک نہ ہو زیادہ بینک ہوں لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ، بینکوں کے درمیان مقابلہ بھی بڑھے گا اس سے وہ اچھی سروس فراہم کریں گے۔ ہم چاہ رہے تھے کہ کٹوتی کی شکایت کو ہم خود مانیٹر کر سکیں اور انشاءاللہ ہم بینکنگ ماڈل کی طرف جا رہے ہیں تاکہ پیسے ڈائریکٹ ان کے اکاوُنٹس میں آئیں۔



سکھر( نمائندہ پاکستان آن لائن نیوز سیدنصیر حسین زیدی) بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ سیپکو انتظامیہ کی زیادتیوں کے خلاف پاکستان مرکزی مسلم لیگ سٹی سکھر کے صدر محمد شاھد ۔جنرل سیکریٹری محمد شکیل کی قیادت میں کارکنان نے سکھر پریس کلب کے باھر احتجاج کرتے ہوۓ بتایا کے نیو پنڈ و دیگر علاقوں میں دن میں 14 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے اور بل 25000 سے 30000 ہزار سے زیادہ آتا ہے جبکہ یونٹ 30 سے 40 یونٹ استعمال ہوتے ہیں سیپکو ملازم بجلی چوری خود کراتے ہیں اور خمیازہ بجلی صارفین کو بھگتنا پڑتا ہے ہم سیپکو چیف و دیگر افسران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بجلی کے بل ادا کرنے والے صارفین کی شکایات کا ازالہ کرتے ہوۓ لوڈشیڈنگ کم کی جائے اوور بلنگ و ڈیڈکشن بلنگ ختم کرتے ہوۓ رلیف دیا جاۓ۔ 



بااثر بلڈر مافیا کی مبینہ زیادتیوں ے

 سکھر(نمائندہ پاکستان آن لان نیوز سیدضیاءالرحمٰن)

بااثر بلڈر مافیا کی مبینہ زیادتیوں کے خلاف متاثرہ شخص کی بالا حکام سے نوٹس لیکر انصاف و تحفظ فراہمی کی اپیل ،




تفصیلات کے مطابق پلاٹوں پر غیر قانونی قبضے و تعمیرات مسمار کرنے سمیت پولیس کی جانب سے تحفظ کی عدم فراہمی کے خلاف سکھر کے علاقے کری کواٹر کے رہائشی ایڈوکیٹ حافظ محمد ایوب مہر نے احتجاج کرتے ہوئے بتایا کہ اسکے سٹی بائی پاس کے قریب گرین سٹی پراجیکٹ میں اس کے دو پلاٹ ہیں جس کی تمام ادائیگی کر دی گئی ہے بعد پراجیکٹ انتظامیہ سمیت سروئیر نے مجھے قانونی حثیت سے قبضہ دیا میں نے پلاٹوں تعمیرات (چاردیواری) کا کام شروع کرایا دو ماہ گذرنے کے بعد ہی پراجیکٹ انتظامیہ کے قبضہ مافیا نے میرے قانونی پلاٹوں پر تعمیرات کو مسمار کرنا شروع کردیا جس کی اطلاع متعلقہ تھانہ ائیر پورٹ پر دی تھی پولیس نے تین افراد کو گرفتار کیا بااثر ہونے کی بناء پر انہیں چھوڑ دیا بلڈر مافیا کی زیادتیوں کے خلاف متعلقہ اداروں کے بالا افسران کو تحریری طور پر شکایات کی لیکن ابتک انصاف نہیں مل سکا ہے متعلقہ تھانے کی پولیس بھی بااثر قبضہ مافیا کے خلاف کاروائی کرنے سے گریز کررہی ہے اور نا ہی مجھے انصاف و تحفظ فراہم کیاجارہا ہے الٹا ملوث جوابدار مجھے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جو سراسر ظلم و زیادتی ہے ایڈوکیٹ محمد ایوب مہر نے چیف جسٹس آف پاکستان،آرمی چیف ،وزیر اعظم ،وزیر داخلہ،چیف جسٹس آف سندھ ہائی کورٹ سکھر،سیشن جج سکھر آئی جی سندھ پولیس،ڈی آئی جی سکھر،ایس ایس پی سکھر،کمشنر سکھر سمیت دیگر بالا حکام سے نوٹس لیکر انصاف و تحفظ فراہمی کا پرزور مطالبہ کیا ہے۔

میرا صحافتی سفر کی کہانی میری زبانی"

 "میرا صحافتی سفر کی کہانی میری زبانی"

ازقلم: *طاہرعباس جنرل سیکرٹری تحصیل پریس کلب رجسٹرڈ کبیروالا*

03037967355


الطاف حُسین حالی نے کہا تھا۔ رہبر بھی، یہ ہم دَم بھی، یہ غم خوار ہمارے۔ اُستاد یہ قوموں کے ہیں، معمار ہمارے۔ بے شک کسی بھی شخصیت کی عمارت کتنی ہی بلند و بالا کیوں نہ تعمیر ہو، اُس کی بنیادوں میں بہر حال ایک اچھے استاد کی بہت مہارت سے لگائی گئی اینٹوں، مٹّی، گارے، سیمنٹ ہی کا عمل دخل ہوتا ہے اور شمع صحافت محمد جاوید اقبال خان ایک ایسے ہی یکتائے زمانہ استاد تھے کہ جنہیں اَن گنت شخصیات کے معمار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ضلع خانیوال میں اُن کے شاگردوں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں، ہم تو خیر اُن کی خاکِ پا بھی نہیں، لیکن ایک خوشی ضرور ہے کہ اُن خوش بختوں میں ہمارا نام بھی کہیں شامل ہے، جنہیں محمد جاوید اقبال خان کی سر پرستی میسّر رہی۔ اُن کے بحرِ علم سے چند ڈول بھرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور بعد ازاں اُن کے پسندیدہ شاگرد کی فہرست میں جگہ بنانے کا شرف و امتیاز بھی حاصل رہا۔ محمد جاوید اقبال خان اپنے نام کی طرح سنجیدگی و متانت، تہذیب و وقار، شستگی وشائستگی کے پیکر، بہت مستحکم، پختہ عقائد و تصوّرات کی حامل شخصیت کے مالک تھے، تو ساتھ ہی نہایت شفیق، مہربان، نرم دل و نرم خُو استاد بھی تھے۔ لیکن جس طرح کبھی کبھی کسی کا کہا کوئی ایک جملہ یک بیک، براہِ راست دل میں اُترتا محسوس ہوتا ہے، کسی کا سُجھایا، دِکھایا ہوا راستہ سیدھا منزل ہی تک لے جاتا ہے، بالکل اِسی طرح بحیثیت طالبعلم اگرچہ ہمارا اُن سے قربت کا تعلق کم عرصے پر محیط رہا، لیکن بہت دیرپا تھا، جس کے اثرات، نقوش اپنی ہستی پر آج بھی بڑے گہرے، بہت پائیدار محسوس ہوتے ہیں۔ محمد جاوید اقبال خان کی وفات کے بعد ملتان، لاہور اور اسلام آباد میں کئی بزرگ صحافی جو استاد جاوید اقبال خان کی ٹیم کے ساتھ رابطے اور دوران ملاقات بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ پھر اچانک ایک دن کبیروالا کے فعال صحافی راو شفیق صاحب سے ملاقات ہوئی تو دوبارہ ان کے ساتھ علاقائی مسائل کی کوریج کرنا شروع کر دیں اور کبیروالا کی صحافی برادری میں جان پہچان بنتی گئی پھر ایک روز راو شفیق نے میری ملاقات ملک ارسلان عباس اعوان نمائندہ نیو نیوز سے کروائی جس کے والد اور بھائی عوام کی خدمت کے لیے دن رات محکمہ پولیس میں کوشاں ہیں ان سے ملاقات کے بعد صحافت میں دلچسپی مزید بڑھ گئی اور اپنے دوست ملک عثمان کے ساتھ مل کر City Pak News HD کے نام سے یوٹیوب چینل بنایا اور آن لائن سیاسی پروگرام شروع کر دیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بانی پریس کلب پیر محسن شاہ، راو ساجد محمود، راو امجد ندیم سابقہ جنرل سیکرٹری پریس کلب کبیروالا اور اویس گجر جیسے کئی دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں اسی اثناء میں رضااللہ خان پرنسپل مسلم کالج کبیروالا کی سرپرستی میں سوشل میڈیا ٹیم کا الیکشن ہوا کمیٹیاں قائم ہوئیں جسمیں 4 پینل پر مشتمل ٹیمیں بن گئیں اور صحافی کئی گروپوں میں تقسیم ہوکر رہ گئے۔ جس میں راو شفیق اور اویس گجر نمائندہ سما نیوز میرے مدمقابل تھے اور اس پینل کی سرپرستی اور کمپین ملک ارسلان عباس اعوان نے کی چاروں پینل کی کمپین سوشل میڈیا سے ووٹرز کے گھروں تک چلی گئی اور مقررہ تاریخ کو پولنگ لگایا گیا کرونا وائرس کا عروج تھا ایجنسیاں کے اہلکار پولنگ اسٹیشن پر چھاپہ مارنے کےلیے تیار رہیں مگر پولنگ ڈے پر ہماری ووٹنگ آن لائن ہوئی۔ شام کو رزلٹ بوگس ووٹوں کے ذریعے چوہدری فاروق آرائیں گلیسی بک سنٹر والے پینل کو کامیاب کروا دیا اور باقی 3 پینل نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ پھر ایک دن شمس گجر بیوروچیف ملتان ویلی کی کال آئی اور ملنے کا اصرار کیا تقریبا دو گھنٹے بعد تحصیل پریس کلب رجسٹرڈ کبیروالا میں ملاقات ہوئی جہاں پر انہوں نے تحصیل پریس کلب میں شامل ہونے کی دعوت دی اور اگلی ملاقات کا ٹائم طے ہوا۔ اگلے روز صبح شمس گجر کی کال موصول ہوئی تو وعدہ کے مطابق میں پریس کلب پہنچا جہاں پر پریس کلب کے چیئرمین ملک ظفرافضال حیدر صاحب اور صدر قسور عباس خان صاحب اور پریس کلب ممبران شامل تھے یہ میری پریس کلب والوں سے پہلی ملاقات تھی۔ گفتگو کئی گھنٹے جاری رہی بلآخر میں نے پریس کلب کے ساتھ چلنے کی حامی بھر لی۔ خصوصاً وہ ایک واقعہ تو بس زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کہ جس نے سوچوں کا رُخ ہی بدل دیا، گویا اگلی پوری زندگی کے لیے ایک لائحہ عمل مرتّب ہوگیا۔

بلاشبہ، میرا شمار پہلے دن ہی سے صحافت کے اچھے شاگردوں میں ہوتا تھا، لیکن کسی بھی استاد نے کبھی اس طور ہمت بندھائی، نہ حوصلہ افزائی کی، جیسی چیئرمین ملک ظفرافضال حیدر نے اپنی غالباً دوسری یا تیسری ہی ملاقات میں کی، جب چیئرمین صاحب نے تمام پریس کلب ممبران کو ایم ایس عمارہ اور عملہ THQ کی بدتمیزی پر ایک اہم تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کبیروالا واقعے کے حوالے سے ایک تاثراتی تحریر "مسیحائی کے لبادہ میں لپٹے غلیظ اور بد کردار لوگ" لکھنے کا اسائنمنٹ دیا۔ اگلے روز اسائنمنٹ جمع کروایا، تو دل سخت ڈرا ہوا تھا کہ چیئرمین پریس کلب بظاہر نرم خُو، خندہ رُو تھے، لیکن اُن کی سنجیدگی اور بعض اوقات عام سی بات میں بھی پنہاں گہرے معنی سے کسی بھی قسم کی خوش فہمی پر ایک پَل میں گھڑوں پانی پڑسکتا تھا۔ کچھ مزاج کا بھی اتنا اندازہ نہ تھا کہ کس قسم کا طرزِ تحریر پسند کرتے ہیں۔ پریس کلب میں ایک کے بعد ایک اسائنمنٹ چیک کر کے واپس کرتے رہے۔ ساتھ ساتھ ہر ممبر کی غلطیوں، خامیوں، کوتاہیوں کی نشان دہی بھی کرتے جا رہے تھے۔ T سے شروع ہونے والے طالبِ علم کا نام پکارا گیا تو میری تو جیسے سانس چلنا بند ہوگئی۔ مگر میرا نام نہیں آیا۔ میری نظریں روسٹرم سے جیسے چپک سی گئی تھیں۔ اور پھر… چیئرمین پریس کلب کے ہاتھ میں صرف ایک اسائنمنٹ رہ گیا اور وہ یقیناً میرا ہی تھا۔ میری اوپر کی سانس اوپر، نیچے کی نیچے تھی۔ مجھےلگا، آج پریس کلب میں بہت ’’عزّت افزائی‘‘ ہونے والی ہے۔ چیئرمین صاحب نے میرا نام پکارا، ’’طاہر عباس‘‘ مَیں سیٹ سے کھڑا ہوگیا۔ ’’جی سر!‘‘ ’’کیا آپ یہاں آکر اپنی یہ تحریر خود پڑھ کر سُنا سکتے ہیں؟‘‘ 

اللہ جانتا ہے کہ سیٹ سے روسٹرم تک فاصلہ طے کرتے جیسے ایک ایک قدم مَن مَن بھر کا ہوگیا تھا۔ پھر چیئرمین کے پاس کھڑے ہو کر پورے پریس کے سامنے اپنی تحریر پڑھنا موت کے کنویں میں سائیکل چلانے کے مترادف تھا، لیکن چوں کہ تحریر سچّے احساسات و جذبات کے ساتھ بڑی دل جمعی سے لکھی تھی۔ سو، اُن ہی تاثرات کے ساتھ بہت روانی وشائستگی سے باآوازِ بلند پڑھ ڈالی۔ نظریں تحریر کی آخری سطروں پر تھیں، جب کانوں میں پہلی زور دار تالی کی آواز گونجی، جو یقیناً چیئرمین پریس کلب کی طرف سے ملنے والی داد تھی اور پھر یہ گونج بڑھتی ہی چلی گئی۔ پورا پریس کلب کی تالیوں کے شور میں چیئرمین ملک ظفرافضال حیدر کے جملے سماعتوں سے ٹکرائے ’’شاباش! اسے کہتے ہیں تاثراتی تحریر۔‘‘ ایسی ستایش، اتنی حوصلہ افزائی، آنکھیں نمکین پانیوں سے بَھر گئیں۔ ماتھے پہ چمکتی پسینے کی بوندیں خشک اور خشک ہونٹ بھیگی سی مُسکراہٹ سے تر ہونے لگے۔ میرے لڑکھڑاتے قدم جیسے جَم سے گئے تھے۔ یوں لگا، جیسے اگلی پوری زندگی کا رُخ متعیّن ہو گیا ہے یا کم از کم اُس پگڈنڈی پر قدم ضرور جا پڑے تھے، جس نے بالآخر کسی نہ کسی روز منزل تک لے جانا تھا۔

آج اگر چار جملے لکھنے، چار لوگوں کے بیچ بیٹھ کر بات کرنی آتی ہے، تو یہ محمد جاوید اقبال خان اور چیئرمین ملک ظفرافضال حیدر جیسے اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب/ تلمّذ تہہ کرنے ہی کا نتیجہ ہے۔ وہ کیا ہے کہ۔ جو علم کا علم ہے، استاد کی عطا ہے… ہاتھوں میں جو قلم ہے، استاد کی عطا ہے۔

کئی ’’درِّ نایاب‘‘ تو اپنی رَو میں بہا لے گیا۔ کچھ حساس طبع، زود رنج ویسے بھی اپنی طبعی عُمر پورے کر رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ چراغ بُجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار۔ اور زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔ اور وہ جو منصور ساحر نے کہا ہےکہ یکتائے فن کی ساری مہارت سپرد خاک … بس یاد رہ گئی ہے، زیارت سپرد خاک… الفت کا آفتاب زمیں بوس ہوگیا… کرنی پڑے گی ہم کو محبّت سپرد خاک۔ تو قائد استاد محمد جاوید اقبال خان پر تو بے لوث محبّتوں، عقیدتوں کے اتنے گُل نچھاور ہو رہے ہیں، بے ریا آنسوؤں کے اس قدر نذرانے لُٹائےجارہے ہیں کہ محبّت سپرد خاک ہوکے بھی تاابد زندہ رہےگی۔ شمع صحافت محمد جاوید اقبال خان صاحب بے لاگ اداریہ نویس ہی نہیں، انتہائی شفیق، مدبّر استاد اور بہترین رہنما بھی تھے۔ اُن کے کئی شاگرد آج زندگی میں جہاں جہاں، جس جس مقام پر ہیں، اُن ہی کی بدولت ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اُن کا سفرِ آخرت، نرم پھولوں کے بستر سا ہو اوراُن کے تمام شاگرد اُن کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ثابت ہوں۔

کس بت کو پکارے کہ داد رسی ہو انصاف کے مندر میں اکیلی ہی کھڑی ہے *کبیروالا تھانہ بارہ میل کی حدود موضع ماڑی سہو میں یتیم بچوں پر ظلم کی انتہا جاگیر داروں اور مقامی پولیس نے ساز باز ہو کر بیوہ خاتون کی وراثتی جائیداد پر قبضہ کرلیا تلی کی فصل پر حل چلا دیے مزہمت پر بیوہ کو تشدد کا نشانہ بھی

 رپورٹ۔ *طاہر عباس جنرل سیکرٹری تحصیل پریس کلب رجسٹرڈ کبیروالا*



کس بت کو پکارے کہ داد رسی ہو

انصاف کے مندر میں اکیلی ہی کھڑی ہے

*کبیروالا تھانہ بارہ میل کی حدود موضع ماڑی سہو میں یتیم بچوں پر ظلم کی انتہا جاگیر داروں اور مقامی پولیس نے ساز باز ہو کر بیوہ خاتون کی وراثتی جائیداد پر قبضہ کرلیا تلی کی فصل پر حل چلا دیے مزہمت پر بیوہ کو تشدد کا نشانہ بھی بنا ڈالا*


تفصیلات کے مطابق تھانہ بارہ میل کی حدود موضع ماڑی سہو کی رہائشی بیوہ خاتون عزیز بی بی کی وراثتی زرعی زمین پر مقامی پولیس اور جاگیر داروں نے ساز باز ہو کر ناجائز قبضہ کر لیا بیوہ خاتون کو مزاحمت پر تشدد کا نشانہ بنا ڈالا، بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے رہے، متاثرہ عورت دادرسی کے لیے چیختی چلاتی رہی، مگر کوئی دادرسی کے لیے نہ پہنچ سکا۔

یتیم بچوں اور بیوہ خاتون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مقامی جاگیردار ڈاکٹر اکمل سہو اور مقامی ایس ایچ او حنیف گجر نے ساز باز ہو کر اپنے اختیارات کا نا جائز استعمال کرتے ہوئے پولیس نفری کے ہمراہ ہماری وراثتی زمین چار کنال پر قبضہ کر لیا تلی کی فصل پر حل چلا دیے مزہمت پر بیوہ اور کم سن بچوں کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا

متاثرہ خاتون اور یتیم بچوں نے ڈی پی او خانیوال، آر پی او ملتان، آئی جی پنجاب، اور وزیراعلی پنجاب مریم نواز صاحبہ سے دادرسی کی اپیل کرتے ہوئے بارہ میل پولیس اور جاگیر داروں کی غنڈہ گردی کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

آج ہی نوٹس لیجئے

 *آج ہی نوٹس لیجئے* ______ ✍️ *نذر حافی* _________ یہ آپ کے اپنے ہم وطن اور بہن بھائی ہیں۔ یہ مجرم نہیں بلکہ مسافر ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کے پ...