میرا صحافتی سفر کی کہانی میری زبانی"

 "میرا صحافتی سفر کی کہانی میری زبانی"

ازقلم: *طاہرعباس جنرل سیکرٹری تحصیل پریس کلب رجسٹرڈ کبیروالا*

03037967355


الطاف حُسین حالی نے کہا تھا۔ رہبر بھی، یہ ہم دَم بھی، یہ غم خوار ہمارے۔ اُستاد یہ قوموں کے ہیں، معمار ہمارے۔ بے شک کسی بھی شخصیت کی عمارت کتنی ہی بلند و بالا کیوں نہ تعمیر ہو، اُس کی بنیادوں میں بہر حال ایک اچھے استاد کی بہت مہارت سے لگائی گئی اینٹوں، مٹّی، گارے، سیمنٹ ہی کا عمل دخل ہوتا ہے اور شمع صحافت محمد جاوید اقبال خان ایک ایسے ہی یکتائے زمانہ استاد تھے کہ جنہیں اَن گنت شخصیات کے معمار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ضلع خانیوال میں اُن کے شاگردوں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں، ہم تو خیر اُن کی خاکِ پا بھی نہیں، لیکن ایک خوشی ضرور ہے کہ اُن خوش بختوں میں ہمارا نام بھی کہیں شامل ہے، جنہیں محمد جاوید اقبال خان کی سر پرستی میسّر رہی۔ اُن کے بحرِ علم سے چند ڈول بھرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور بعد ازاں اُن کے پسندیدہ شاگرد کی فہرست میں جگہ بنانے کا شرف و امتیاز بھی حاصل رہا۔ محمد جاوید اقبال خان اپنے نام کی طرح سنجیدگی و متانت، تہذیب و وقار، شستگی وشائستگی کے پیکر، بہت مستحکم، پختہ عقائد و تصوّرات کی حامل شخصیت کے مالک تھے، تو ساتھ ہی نہایت شفیق، مہربان، نرم دل و نرم خُو استاد بھی تھے۔ لیکن جس طرح کبھی کبھی کسی کا کہا کوئی ایک جملہ یک بیک، براہِ راست دل میں اُترتا محسوس ہوتا ہے، کسی کا سُجھایا، دِکھایا ہوا راستہ سیدھا منزل ہی تک لے جاتا ہے، بالکل اِسی طرح بحیثیت طالبعلم اگرچہ ہمارا اُن سے قربت کا تعلق کم عرصے پر محیط رہا، لیکن بہت دیرپا تھا، جس کے اثرات، نقوش اپنی ہستی پر آج بھی بڑے گہرے، بہت پائیدار محسوس ہوتے ہیں۔ محمد جاوید اقبال خان کی وفات کے بعد ملتان، لاہور اور اسلام آباد میں کئی بزرگ صحافی جو استاد جاوید اقبال خان کی ٹیم کے ساتھ رابطے اور دوران ملاقات بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ پھر اچانک ایک دن کبیروالا کے فعال صحافی راو شفیق صاحب سے ملاقات ہوئی تو دوبارہ ان کے ساتھ علاقائی مسائل کی کوریج کرنا شروع کر دیں اور کبیروالا کی صحافی برادری میں جان پہچان بنتی گئی پھر ایک روز راو شفیق نے میری ملاقات ملک ارسلان عباس اعوان نمائندہ نیو نیوز سے کروائی جس کے والد اور بھائی عوام کی خدمت کے لیے دن رات محکمہ پولیس میں کوشاں ہیں ان سے ملاقات کے بعد صحافت میں دلچسپی مزید بڑھ گئی اور اپنے دوست ملک عثمان کے ساتھ مل کر City Pak News HD کے نام سے یوٹیوب چینل بنایا اور آن لائن سیاسی پروگرام شروع کر دیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بانی پریس کلب پیر محسن شاہ، راو ساجد محمود، راو امجد ندیم سابقہ جنرل سیکرٹری پریس کلب کبیروالا اور اویس گجر جیسے کئی دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں اسی اثناء میں رضااللہ خان پرنسپل مسلم کالج کبیروالا کی سرپرستی میں سوشل میڈیا ٹیم کا الیکشن ہوا کمیٹیاں قائم ہوئیں جسمیں 4 پینل پر مشتمل ٹیمیں بن گئیں اور صحافی کئی گروپوں میں تقسیم ہوکر رہ گئے۔ جس میں راو شفیق اور اویس گجر نمائندہ سما نیوز میرے مدمقابل تھے اور اس پینل کی سرپرستی اور کمپین ملک ارسلان عباس اعوان نے کی چاروں پینل کی کمپین سوشل میڈیا سے ووٹرز کے گھروں تک چلی گئی اور مقررہ تاریخ کو پولنگ لگایا گیا کرونا وائرس کا عروج تھا ایجنسیاں کے اہلکار پولنگ اسٹیشن پر چھاپہ مارنے کےلیے تیار رہیں مگر پولنگ ڈے پر ہماری ووٹنگ آن لائن ہوئی۔ شام کو رزلٹ بوگس ووٹوں کے ذریعے چوہدری فاروق آرائیں گلیسی بک سنٹر والے پینل کو کامیاب کروا دیا اور باقی 3 پینل نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ پھر ایک دن شمس گجر بیوروچیف ملتان ویلی کی کال آئی اور ملنے کا اصرار کیا تقریبا دو گھنٹے بعد تحصیل پریس کلب رجسٹرڈ کبیروالا میں ملاقات ہوئی جہاں پر انہوں نے تحصیل پریس کلب میں شامل ہونے کی دعوت دی اور اگلی ملاقات کا ٹائم طے ہوا۔ اگلے روز صبح شمس گجر کی کال موصول ہوئی تو وعدہ کے مطابق میں پریس کلب پہنچا جہاں پر پریس کلب کے چیئرمین ملک ظفرافضال حیدر صاحب اور صدر قسور عباس خان صاحب اور پریس کلب ممبران شامل تھے یہ میری پریس کلب والوں سے پہلی ملاقات تھی۔ گفتگو کئی گھنٹے جاری رہی بلآخر میں نے پریس کلب کے ساتھ چلنے کی حامی بھر لی۔ خصوصاً وہ ایک واقعہ تو بس زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کہ جس نے سوچوں کا رُخ ہی بدل دیا، گویا اگلی پوری زندگی کے لیے ایک لائحہ عمل مرتّب ہوگیا۔

بلاشبہ، میرا شمار پہلے دن ہی سے صحافت کے اچھے شاگردوں میں ہوتا تھا، لیکن کسی بھی استاد نے کبھی اس طور ہمت بندھائی، نہ حوصلہ افزائی کی، جیسی چیئرمین ملک ظفرافضال حیدر نے اپنی غالباً دوسری یا تیسری ہی ملاقات میں کی، جب چیئرمین صاحب نے تمام پریس کلب ممبران کو ایم ایس عمارہ اور عملہ THQ کی بدتمیزی پر ایک اہم تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کبیروالا واقعے کے حوالے سے ایک تاثراتی تحریر "مسیحائی کے لبادہ میں لپٹے غلیظ اور بد کردار لوگ" لکھنے کا اسائنمنٹ دیا۔ اگلے روز اسائنمنٹ جمع کروایا، تو دل سخت ڈرا ہوا تھا کہ چیئرمین پریس کلب بظاہر نرم خُو، خندہ رُو تھے، لیکن اُن کی سنجیدگی اور بعض اوقات عام سی بات میں بھی پنہاں گہرے معنی سے کسی بھی قسم کی خوش فہمی پر ایک پَل میں گھڑوں پانی پڑسکتا تھا۔ کچھ مزاج کا بھی اتنا اندازہ نہ تھا کہ کس قسم کا طرزِ تحریر پسند کرتے ہیں۔ پریس کلب میں ایک کے بعد ایک اسائنمنٹ چیک کر کے واپس کرتے رہے۔ ساتھ ساتھ ہر ممبر کی غلطیوں، خامیوں، کوتاہیوں کی نشان دہی بھی کرتے جا رہے تھے۔ T سے شروع ہونے والے طالبِ علم کا نام پکارا گیا تو میری تو جیسے سانس چلنا بند ہوگئی۔ مگر میرا نام نہیں آیا۔ میری نظریں روسٹرم سے جیسے چپک سی گئی تھیں۔ اور پھر… چیئرمین پریس کلب کے ہاتھ میں صرف ایک اسائنمنٹ رہ گیا اور وہ یقیناً میرا ہی تھا۔ میری اوپر کی سانس اوپر، نیچے کی نیچے تھی۔ مجھےلگا، آج پریس کلب میں بہت ’’عزّت افزائی‘‘ ہونے والی ہے۔ چیئرمین صاحب نے میرا نام پکارا، ’’طاہر عباس‘‘ مَیں سیٹ سے کھڑا ہوگیا۔ ’’جی سر!‘‘ ’’کیا آپ یہاں آکر اپنی یہ تحریر خود پڑھ کر سُنا سکتے ہیں؟‘‘ 

اللہ جانتا ہے کہ سیٹ سے روسٹرم تک فاصلہ طے کرتے جیسے ایک ایک قدم مَن مَن بھر کا ہوگیا تھا۔ پھر چیئرمین کے پاس کھڑے ہو کر پورے پریس کے سامنے اپنی تحریر پڑھنا موت کے کنویں میں سائیکل چلانے کے مترادف تھا، لیکن چوں کہ تحریر سچّے احساسات و جذبات کے ساتھ بڑی دل جمعی سے لکھی تھی۔ سو، اُن ہی تاثرات کے ساتھ بہت روانی وشائستگی سے باآوازِ بلند پڑھ ڈالی۔ نظریں تحریر کی آخری سطروں پر تھیں، جب کانوں میں پہلی زور دار تالی کی آواز گونجی، جو یقیناً چیئرمین پریس کلب کی طرف سے ملنے والی داد تھی اور پھر یہ گونج بڑھتی ہی چلی گئی۔ پورا پریس کلب کی تالیوں کے شور میں چیئرمین ملک ظفرافضال حیدر کے جملے سماعتوں سے ٹکرائے ’’شاباش! اسے کہتے ہیں تاثراتی تحریر۔‘‘ ایسی ستایش، اتنی حوصلہ افزائی، آنکھیں نمکین پانیوں سے بَھر گئیں۔ ماتھے پہ چمکتی پسینے کی بوندیں خشک اور خشک ہونٹ بھیگی سی مُسکراہٹ سے تر ہونے لگے۔ میرے لڑکھڑاتے قدم جیسے جَم سے گئے تھے۔ یوں لگا، جیسے اگلی پوری زندگی کا رُخ متعیّن ہو گیا ہے یا کم از کم اُس پگڈنڈی پر قدم ضرور جا پڑے تھے، جس نے بالآخر کسی نہ کسی روز منزل تک لے جانا تھا۔

آج اگر چار جملے لکھنے، چار لوگوں کے بیچ بیٹھ کر بات کرنی آتی ہے، تو یہ محمد جاوید اقبال خان اور چیئرمین ملک ظفرافضال حیدر جیسے اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب/ تلمّذ تہہ کرنے ہی کا نتیجہ ہے۔ وہ کیا ہے کہ۔ جو علم کا علم ہے، استاد کی عطا ہے… ہاتھوں میں جو قلم ہے، استاد کی عطا ہے۔

کئی ’’درِّ نایاب‘‘ تو اپنی رَو میں بہا لے گیا۔ کچھ حساس طبع، زود رنج ویسے بھی اپنی طبعی عُمر پورے کر رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ چراغ بُجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار۔ اور زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔ اور وہ جو منصور ساحر نے کہا ہےکہ یکتائے فن کی ساری مہارت سپرد خاک … بس یاد رہ گئی ہے، زیارت سپرد خاک… الفت کا آفتاب زمیں بوس ہوگیا… کرنی پڑے گی ہم کو محبّت سپرد خاک۔ تو قائد استاد محمد جاوید اقبال خان پر تو بے لوث محبّتوں، عقیدتوں کے اتنے گُل نچھاور ہو رہے ہیں، بے ریا آنسوؤں کے اس قدر نذرانے لُٹائےجارہے ہیں کہ محبّت سپرد خاک ہوکے بھی تاابد زندہ رہےگی۔ شمع صحافت محمد جاوید اقبال خان صاحب بے لاگ اداریہ نویس ہی نہیں، انتہائی شفیق، مدبّر استاد اور بہترین رہنما بھی تھے۔ اُن کے کئی شاگرد آج زندگی میں جہاں جہاں، جس جس مقام پر ہیں، اُن ہی کی بدولت ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اُن کا سفرِ آخرت، نرم پھولوں کے بستر سا ہو اوراُن کے تمام شاگرد اُن کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ثابت ہوں۔

No comments:

Post a Comment

آج ہی نوٹس لیجئے

 *آج ہی نوٹس لیجئے* ______ ✍️ *نذر حافی* _________ یہ آپ کے اپنے ہم وطن اور بہن بھائی ہیں۔ یہ مجرم نہیں بلکہ مسافر ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کے پ...