خانیوال کے نواحی گاؤں 168/دس آر تھانہ سٹی کی حدود میں افسوسناک واقع پیش آیا ہے

 

 خانیوال کے نواحی گاؤں 168/دس آر تھانہ سٹی کی حدود میں افسوسناک واقع پیش آیا ہے

خانیوال کے نواحی گاؤں 168/دس آر تھانہ سٹی کی حدود میں افسوسناک واقع پیش آیا ہے چودہ سالہ طیبہ کیساتھ چاراوباش نوجوانوں نے مبینہ طور پراجتماعی زیادتی کر ڈالی لواحقین ملزمان کیخلاف سراپائے احتجاج بنے ہوئے ہیں 

خانیوال(عدنان رسول) تفصیلات کے مطابق چند روز پہلے گھرسودا سلف خریدنے جانیوالی چودہ سالہ طیبہ کیساتھ چار اوباشوں نے مبینہ طور پراجتماعی زیادتی کر ڈالی چودہ سالہ طیبہ کیساتھ ظالمانہ عمل کرنے والے چار ملزمان کیخلاف تھانہ سٹی پولیس نے فوری مقدمہ درج کرکے چار میں سے دو گرفتار کرلیے ہیں تھانہ سٹی کے ایس ایچ نے جبکہ دو مفرور بااثر ملزمان کی جانب سے طیبہ اور لواحقین کو سنگین نتائج دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں لواحقین اور متاثرہ بچی دھمکیاں دینے دو ملزمان کیخلاف سراپائے احتجاج بنے ہوئے ہیں والدہ نے مبینہ الزام لگایا ہے چار اوباشوں نے میری بیٹی کیساتھ زیادتی کی ہے جو میری بیٹی کیساتھ بہت بڑا ظلم ہوا ہے بچی کی والدہ کا رو رو کر براحال ہوگیا ہے مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کے نتیجے متاثرہ لڑکی کی حالت غیر ہوئی تو ملزمان متاثرہ بچی گلی میں چھوڑ کر دو ملزمان فرار ہوگئے پولیس تھانہ سٹی کو اطلاع ملی تو پولیس تھانہ سٹی نے موقع پر پہنچ گئی اور دو ملزمان کو گرفتار مقدمہ درج کرلیا اور پولیس تھانہ سٹی نے متاثرہ بچی کے ڈی این اے کے سیمپل فرانزک لیب کو بھجوادیے اورزیادتی کرنیوالےفرار ملزمان کیخلاف متاثرہ بچی اور والدہ احتجاج کرنے والےتمام لواحقین کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہمارے دو ملزمان گرفتار ہیں اور باقی دو کو بھی گرفتار کرکے ہمیں دھمکیاں دینے اور ہمارے بچی کیساتھ ظلم کرنے والے درندوں کو سخت سزا دلوائی جائے(تصویر ہمراہ ہے)

سب بڑافراڈ عام آدمی

 


*سب بڑافراڈ عام آدمی 

ایک کتاب میں میں نے عام آدمی کے بارے میں پڑھا تھا لیکن یقین نہیں ہو رہا تھا لیکن جب عملی زندگی میں میرا پالا جب عام آدمی سے پڑا تو کتاب میں لکھے ہوئے بھی بہت کم پایا 

کوئی مانے یا نہ مانے‘ اس ملک میں سب سے بڑا جھوٹا‘ سب سے بڑا چور‘ عام آدمی ہے!

یہ عام آدمی کون ہے کیا ہے 

 یہ جو عام آدمی ہے‘ جمع جس کی عوام ہے اور واحد جس کی عام آدمی ہے‘ یہ عام آدمی انتہائی بے شرم‘ بے حیا‘ ڈھیٹ اور بد دیانت ہے! یہ عام آدمی سیاست میں ہے نہ اسٹیبلشمنٹ میں! یہ نہ بیورو کریٹ ہے‘ نہ جرنیل! مگر یہ سب سے بڑا فرعون ہے! یہ اپنے جیسے دوسرے عام لوگوں کا سب سے بڑا دشمن ہے!


یہ پھل بیچتا ہے تو جان بوجھ کر گندے پھل تھیلے میں ڈالتا ہے۔ یہ موٹر سائیکل چلاتا ہے تو پیدل چلنے والوں اور گاڑیاں چلانے والوں کے لیے خدا کا عذاب بنتا ہے۔ یہ ویگن اور بس چلاتا ہے تو ہلاکت کا پیامی بن کر چلاتا ہے‘ لوگ دور بھاگتے ہیں! یہ ٹریکٹر ٹرالی اور ڈمپر چلاتا ہے تو موت کا فرشتہ بن جاتا ہے۔ ٹریکٹر ٹرالیاں اور ڈمپر‘ بلامبالغہ سینکڑوں گاڑیوں اور ہزاروں انسانوں کو کچل چکے ہیں۔


 یہ عام آدمی جب سرکاری دفتر میں کلرک بن کر بیٹھتا ہے تو سانپ کی طرح پھنکارتا ہے اور بچھو کی طرح ڈستا ہے۔ یہ دفتر سے نماز کے لیے جاتا ہے تو واپس نہیں آتا۔ سائل انتظار کر کر کے نامراد ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔ آپ ڈاکخانے جائیے‘ بورڈ لگا ہو گا ''ڈیڑھ بجے نماز کا وقفہ ہے‘‘۔ یہ وقفہ کب ختم ہو گا؟ کچھ معلوم نہیں! یہی عام آدمی اگر صحافی ہے تو اپنے آپ کو ہر قسم کی پابندی اور قانون سے مبرا سمجھتا ہے اگر خدانخواستہ کسی نے اس صحافی بھائی کے رشتے داروں کی دونمبری کی دوکان پر منشیات فروشی کے اڈے پر بی آئی ایس پی کی رقم سے کٹوتی پر کسی محکمے کے افسران نے ریڈ کر دیا تو اس کو صحافی سے اژدہا بننے میں دیر نہیں لگے گی 

اگر یہی عام آدمی پولیس میں ہے تو پورا خاندان بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیاں استعمال کر سکتا ہے بغیر ٹوکن ٹیکس گاڑی چلا سکتا ہے اس کے خاندان کے کچھ افراد کو منشیات فروشی کا لائسنس مل جاتا ہے جس سے اپنے جیسے عام آدمیوں کا قتل عام کرتے ہیں رشتے داروں کے لئے اسلحہ فری اس عام آدمی کو درندہ بننے میں اس وقت دیر نہیں لگتی جب اس کے کسی رشتے دار کو اس جیسا وردی والا عام آدمی کہیں ناکے پر روک لے اور اس عام آدمی کی بات بھی نہ مان رہا ہو 


 یہ عام آدمی دکاندار ہے تو گاہکوں کو اپنا غلام اور خود کو ہامان سمجھتا ہے۔ صبح جوتے خرید کر شام کو واپس کرنے جائیے، نہیں لے گا۔ واپس کرنا تو دور کی بات ہے‘ تبدیل تک نہیں کرے گا! اس کا گاہک بھی عام آدمی ہے۔ وہ دکاندار سے بھی زیادہ فریبی ہے۔ چیز اچھی خاصی استعمال کرکے واپس یا تبدیل کرنے آئے گا۔

یہ عام آدمی گھر کا کوڑا گلی میں پھینکتا ہے۔ یہ دو کروڑ مکان کی تعمیر پر لگا دیتا ہے مگر پانچ ہزار کی بجری‘ گھر کے سامنے ٹوٹی ہوئی سڑک پر نہیں ڈلوا سکتا۔ یہ عام آدمی گھر بناتا ہے تو گلی کا کچھ حصہ گھر میں شامل کر لیتا ہے۔ دکان ڈالتا ہے تو نہ صرف فٹ پاتھ بلکہ آدھی سڑک پر اپنا سامان رکھتا ہے۔ یہ عام آدمی ناجائز تجاوزات کی شکل میں جو فائدہ اٹھا رہا ہے اس کا حساب لگائیے تو شریفوں اور زرداریوں کی مبینہ چوری سے ہزار گنا بڑی چوری ثابت ہو گی!

یہی عام آدمی جب ایک مجسٹریٹس کے طور پر کام کرتا ہے تو دوکاندار ہوٹل مالکان سے ہزاروں روپے رشوت لینے کے بعد فرضی کاروائی اور خانہ پوری کے لئے اس دوکاندارکو چند سو یا چند ہزار روپے جرمانہ کر کے اپنے جیسے عام آدمی کی بھوک سے نڈھال ہونے پر خودکشی کا باعث بنتا ہے 

یہ عام آدمی گیس کے محکمے میں ملازم لگتا ہے تو رشوت لے کر ناجائز‘ چوری چھپے‘ گیس کنکشن دیتا ہے۔ بجلی کے محکمے میں جائے تو گھر بیٹھ کر میٹر ریڈنگ کرتا ہے۔ ٹیلی فون آپریٹر لگے تو فون ہی نہیں اٹھاتا۔ آزما لیجیے۔ آپ کے گردے فیل ہو جائیں گے مگر آپریٹر آپ کی کال نہیں اٹھائے گا۔

یہی عام آدمی جب ڈی سی آفس میں ملازم ہوتا ہے تو اپنے جیسے عام آدمی کے لیے سب سے زیادہ اذیت کا باعث بنتا ہے 

یہ عام آدمی ہی ہے جس نے سیاست دانوں کی عادتیں بگاڑی ہیں۔ یہ خوشی سے ان سیاست دانوں کی‘ ان کے بچوں کی‘ ان کے خاندانوں کی غلامی کرتا ہے۔ یہ ساری زندگی ان کے جلسوں میں دریاں بچھاتا ہے۔ نعرے لگاتا ہے۔ ان کی گاڑیوں کے ساتھ دوڑتا ہے۔ ان کی حمایت میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے جھگڑتا ہے یہاں تک کہ تعلقات توڑ دیتا ہے مگر اپنی اور اپنے کنبے کی حالتِ زار پر رحم کرتا ہے نہ سیاست دانوں سے اپنے حقوق مانگتا ہے۔ 


یہ عام آدمی اپنے جیسے عام آدمیوں کو اذیت پہنچاتا ہے۔ بیٹے کی شادی کرے تو لڑکی والوں سے جہیز مانگتا ہے۔ بیٹی کی شادی کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ نندوں اور ساس کو چلتا کرے یا ان کے اختیارات چھین لے۔


مسجد میں نماز پڑھنا شروع کرتا ہے تو مولوی صاحب کو اپنا ملازم سمجھتا ہے۔ تجارت کرتا ہے تو کم تولتا ہے۔کسی کے گھرمیں ملازم ہو تو مالک کے ساتھ مخلص نہیں۔ کسی کو اپنا ملازم رکھے تو اس کے کھانے پینے اور لباس کا خیال نہیں رکھتا۔ پیروں‘ فقیروں کے پیچھے بھاگ کر خوار و زبوں ہوتا ہے مگر گھر میں بیٹھے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا۔


یہ ہے وہ عام آدمی جو چاہتا ہے کہ عمران خان‘ نواز شریف‘ زرداری اور چودھری‘ سب کے سب راتوں رات عمر بن عبد العزیزؒ بن جائیں۔


رات دن ان پر تنقید کرتا ہے۔ اسے پورا یقین ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی راہِ راست پر ہے تو صرف وہی ہے اور باقی سب کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ سیاست پر‘ مذہب پر‘ ملکی نظام پر‘ امریکہ پر اس کا کہا حرفِ آخر ہے۔ وہی بلند ترین اتھارٹی ہے۔


 وہ بہت خلوص سے کہتا اور سمجھتا ہے کہ اگر ملک کو اس کی تجاویز کے مطابق چلایا جائے تو دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی!


جس دن یہ عام آدمی‘ آدمی سے انسان بن گیا تو اہلِ سیاست سے لے کر مقتدرہ تک‘ سب ٹھیک ہو جائیں گے۔ اور اس کے انسان بننے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے

*بابر اعظم کے چہرے پر ہوائیاں ملک میں کروڑوں شائقین


*بابر اعظم کے چہرے پر ہوائیاں ملک میں کروڑوں شائقین ناراض*




ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں امریکا کے ہاتھوں حیران کن شکست کے بعد کپتان بابر اعظم سخت پریشان نظر آئے ان کے چہرے کی ہوائیں اڑی ہوئیں تھیں۔


گراونڈ میں فیلڈنگ کے دوران بھی وہ اپنے بولروں پر ناراضی کا اظہارکرتے رہے۔


ملک میں کروڑوں شائقین ٹیم کے بدترین کارکردگی پر ناراض دکھائی دیئےاور انہوں نے کھلاڑیوں پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ٹیم میں نئے خون کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا

 



20 کا بڑا اپ سیٹ، امریکا نے پاکستان کو ہرا دیا*

 




*ٹی 20 کا بڑا اپ سیٹ، امریکا نے پاکستان کو ہرا دیا*


 


ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں امریکا نے پاکستان کو *سپر اوور میں 5 رنز سے شکست* دے کر ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا اپ سیٹ کردیا۔


ناقص بیٹنگ، بولروں کی خراب کارکردگی اور غیر معیاری فیلڈنگ کے باعث پاکستان کو عبرت ناک شکست ہوئی


پاکستان کو پہلے میچ میں شرم ناک شکست سے اس کا دوسرا مرحلے میں کوالی فائی کرنا مشکل ہوگیا ہے۔



عارف والا کورٹ میں آیا اشتہاری ملزم گرفتار

عارف والا کورٹ میں آیا اشتہاری ملزم گرفتار




عارف والا کورٹ میں آیا اشتہاری ملزم گرفتار پانچ سال پہلے غلہ منڈی میں تاجر رانا فرزند خاں کے ساتھ دو کروڑ کا فراڈ کرنے والا اشتہاری ملزم احد اسلام معظم قانون کی گرفت میں مقدمہ نمبر 365/20 ملزم احد اسلام معظم ولد محمد اسلم جو سکنہ تحصیل و ضلع وہاڑی کا رہائشی ہے ۔ 

اور غلہ منڈی عارف والا میں رانا فرزند اونر منظور العارفین ٹریڈرز سے مال خرید کرتا تھا ملزم احد اسلام اعتماد کی بنا پر دو کروڑ دو لاکھ کا فراڈ کر کے روپوش ہو گیا ۔

پانچ سال بعد ملزم کو عارف والا کورٹ سے گرفتار کر لیا گیا منظور العارفین ٹریڈرز کے اونر رانا فرزند خاں کو 2019 میں ملزم احد اسلام نےچیک دیا ۔ جو کہ بنک نے اس چیک کو مسترد کر دیا ۔ اور چیک کیش نہ ہو سکا اور احد اسلام دو کروڑ کا فراڈ کرکے غائب ہو گیاملزم احد اسلام کا شناختی کارڈ نادرا سے بلاک ہو گیا تھا ۔ جس کی احد اسلام کو بہت ضرورت پڑی پرچے کی ضمانت وغیرہ دائر کرنے آیا ۔ اور پولیس نے اشتہاری ملزم کو گرفتار کر کے مزید کارروائی شروع کر دی ۔

کامیابی کی چابیاں (4)-مثبت سوچ اپنانا

 کامیابی کی چابیاں (4)-مثبت سوچ اپنانا








تحریر:ایس ایم شاہ

مثبت سوچ کا انسان کی کامیابی میں کلیدی کردار ہے۔ اگر آپ اپنے ذہن کو مثبت سوچ سے بھر دیں گے تو منفی سوچ آپ کے قریب بھی نہیں آئے گی۔ پیغمبران الٰہی کو بھیجنے کا ایک اہم مقصد بھی لوگوں کے طرز تفکر اور زاویہ نگاہ کو تبدیل کرنا تھا۔ اسی وجہ سے اسلام نے "حسنِ نیت" کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ "انما الاعمال بالنیات" یعنی انسان کے تمام کاموں کا دار و مدار اس کی نیت پر ہے۔ اسلام نے یہاں اس نفسیاتی عنصر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے کہ انسان کی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کیا جائے۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام کی نبوت و رسالت، بارہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت و رہبری اور قیامت پر پختہ عقیدہ رکھنے کے بعد دنیا کے تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے، تمام غریبوں کی مدد کرنے، تمام یتیموں کو سایہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھانے، تمام تنگ دست مریضوں کا علاج معالجہ کرنے، تمام ناداروں کی امداد رسانی کرنے، تمام بے سہاروں کا سہارا بننے، تمام بے آسراؤں کا آسرا بننے، تمام مظلوموں کا دفاع کرنے، تمام ظالموں سے نمٹتے رہنے، تمام غاصبوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے، عدل و انصاف کو عام کرنے اور ظلم و بربریت سے برسرپیکار رہنے، طبقاتی نظام کا خاتمہ کرنے، امن و امان کو فروغ دینے اور نفرت و دشمنی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے، سماجی ناانصافیوں کا خاتمہ کرنے اور معاشرتی جرائم کو جڑ سے کاٹنے، عفت و حیا کو پروان چڑھانے اور بے عفتی اور بے حیائی سے نبرد آزما رہنے کا مصمم ارادہ کرے تو گویا اس نے اپنی زندگی کو ہی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے۔ اس وقت اللّٰہ تعالیٰ "حسنِ نیت" کے باعث ان تمام اچھے کاموں کو انجام دینے کا اجر و ثواب ایسے شخص کو عطا کرتا ہے۔ اگر چہ بعض امور عملی طور پر اس سے انجام نہ پاسکے ہوں۔

مثبت سوچ رکھنے والا کائنات میں رونما ہونے والے سانحات و واقعات کو کبھی شر قرار نہیں دیتا بلکہ ایسے امور کو کائناتی سسٹم کا حصہ اور مشیت الٰہی قرار دیتا ہے۔

بد ترین حالات سے بہترین نتیجہ نکالنے کا نام مثبت فکر ہے۔

جب کسی بھی ایشو میں مثبت پہلو کو تلاش کرنا شروع کیا جائے تو بہت سارے مثبت پہلو سامنے آنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔

معاشرے کے دو ایسے افراد جن کو زندگی کی سہولیات مساوی طور پر حاصل ہیں لیکن ان میں سے ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جبکہ دوسرا شخص بے سکونی اور کرب کے عالم میں زندگی کے لمحات گزار رہے ہوتے ہیں۔ ایسے افراد اپنی ذات سے باہر کی دنیا میں خوشحالی کے اسباب ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں جبکہ خوشحالی کے تمام اسباب انسان کے اپنے وجود کے اندر میسر ہیں۔

آج فلسطین کے حالات ملاحظہ کیجئے۔ غاصب اسرائیل کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں پر آٹھ ماہ سے مسلسل بمباری کے ذریعے عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہے۔ بے گناہ مظلوم فلسطینیوں کی کسمپرسی کی یہ حالت دیکھ کر دنیا کے ہر باضمیر انسان کی آنکھیں اشک بار ہیں لیکن اس کے باوجود نہ فقط کسی فلسطینی کے چہرے پر مایوسی کے اثرات نمودار نہیں بلکہ ان کے زخمی چہرے کے ساتھ لبوں پر مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے۔ یہ لوگ کھنڈرات کے درمیان میں بھی مسکراہٹیں بانٹ رہے ہیں۔ تمام عزیزوں کو کھونے کے باوجود بھی ان کا دل مطمئن ہے۔ کیونکہ انہیں قلبی ایمان ہے کہ ہمیں عدم سے وجود میں لانے والا اللّٰہ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور یہ الٰہی وعدہ ہے کہ سختیوں کے بعد آسانیاں ہیں۔ ظالم اور مظلوم کی جنگ میں فتح ہمیشہ مظلوم کی ہوتی ہے؛ کیونکہ یہ سنت الٰہی ہے کہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اللّٰہ تعالیٰ پر ان کا پختہ ایمان اور مثبت سوچ کے حامل ہونے کے باعث ممکن ہوا ہے۔

یہ ایک کلی قانون ہے کہ انسان جس چیز کو تلاش کرتا ہے درنتیجہ اسی کو پا لیتا ہے۔ انسان کسی دوسرے شخص کو اس وقت خوش رکھ سکتا ہے جب وہ خود خوشحال ہو اور وہ خود اس وقت خوشحال ہو سکتا ہے جب وہ اپنے اندر موجود خداداد صلاحیتوں اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اسے عطا ہونے والی نعمتوں کا ادراک اور احساس کرے۔ اللّٰہ تعالٰی نے جتنی بھی نعمتوں سے انسان کو نوازا ہے ان نعمتوں کا احساس اسے سکونِ قلب اور اطمینانِ خاطر کے حصول کا سبب بنتا ہے۔ لہذا مثبت سوچ کے حامل انسان کے لیے اصولا ہمیشہ خوشحال رہنا چاہئے۔ کبھی کبھار پریشان حال ہونا خلافِ معمول ہے۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہمیشہ کے لیے ہے ایک خاص وقت کے لیے نہیں۔

مثبت سوچ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے حضرت یوسف اور حضرتِ زینب علیہما السلام کا واقعہ کافی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کے ظلم کے شکنجے میں پچیس سال تک پستے رہے، آپ کے والد گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام آپ کے فراق میں گریاں رہ کر ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں، ہر قسم کے مصائب و آلام جھیلنے کے باوجود پچیس سال کے بعد اپنے والد گرامی سے ملنے پر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے خلاف حرفِ شکایت بلند کرنے کے بجائے فرمایا کہ اللّٰہ نے زندان کی تاریکی سے نجات دلاکر اور آپ سے وصال کا موقع فراہم کرکے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان میں فساد ایجاد کیا۔ 

اسی طرح بھائیوں، بیٹوں سب کو قربان کرنے اور اسیری کے سخت ترین لمحات گزارنے کے بعد ابن زیاد کے دربار میں حضرتِ زینب علیہا السلام فرماتی ہیں کہ میں نے میرے خدا سے اچھائی اور خوبصورتی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ یہ ہے حقیقی معنوں میں مثبت سوچ اپنانا۔

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا رویہ دنیاوی مسائل و مشکلات اور مصائب و آلام کے مقابلے میں اس کے زاویہ نگاہ کے مطابق تبدیل ہوتا ہے۔ یوں مثبت سوچ اپنانے کے ذریعے انسان زندگی کے سخت ترین لمحات میں بھی خوبصورت پہلو نکال سکتا ہے۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ پر راسخ عقیدہ اور پختہ ایمان رکھنے اور کامل توکل کے سائے میں ہی متحقق ہو سکتا ہے۔ لہذا ہمیں مثبت سوچ اپنانے کے ذریعے خوشحال زندگی گزارنے کا ہنر سیکھ لینا چاہئے۔

*شاباش پنجاب پولیس



 *شاباش پنجاب پولیس*

(اخترعلی عباسی جوائنٹ سیکرٹری پنجاب میڈیا کلب عارفوالا)

 پاکپتن شریف کا کانسٹیبل عبدالحمد عرف بلا ڈرائیور 1081 جو SEG ریزرو جناب IG صاحب پنجاب سکاڈ ڈیوٹی کرنے پاکپتن سے آیا ہوا تھا ایک نعملوم شخص جو اپنے اوپر پٹرول ڈال کر خود خوشی کرنے کے لیے آئی جی افس کے سامنے ایا اور اپنے اوپر پٹرول ڈالنے لگا جس کو دیکھ کر عبدالحمید کانسٹیبل نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس کو بچانے کے لیے بھاگ پڑا جب اس کے نزدیک گیا تو اس شخص نے اپنے آپ کو آگ لگا لی 

 عبدالحمید کانسٹیبل نے اس شخص کی جان تو بچا لی لیکن اپنے آپ کو خطرے میں ڈال لیا اور خود آگ سے بری طرح زخمی ہو گیا عبدالحمید کانسٹیبل پاکپتن کی دھرتی کا ثپوت ہے اللہ پاک کانسٹیبل کو زندگی اور تندرستی دیں کانسٹیبل عبدالحمید کو فورا طور پر لاہور کے نزدیکی ہسپتال میں پہنچا دیا گیا ہے اعلی افسران ایس ایس پی اپریشن فیصل صاحب ایس ایس پی ایڈمن اور متعلقہ ایس پی صاحبان اور ایس ایچ او صاحبان سارے موقع پر پہنچ گئے

آج ہی نوٹس لیجئے

 *آج ہی نوٹس لیجئے* ______ ✍️ *نذر حافی* _________ یہ آپ کے اپنے ہم وطن اور بہن بھائی ہیں۔ یہ مجرم نہیں بلکہ مسافر ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کے پ...